ان تحریرات کو پڑھ کر آپ حیران ہوںگے کہ آخر مرزاقادیانی کی کس بات کو تسلیم کیا جائے۔
’’ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نکل نہیں سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘ (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۲)
’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی ہے کہ ایک کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
اس تضاد کو رفع کرنے کے لئے مختلف توجیہات سے کام لیاگیا۔
اوّل…مرزاقادیانی حضورﷺ کا بروزومظہر تھے
آپ کی ہستی حضورﷺ سے جدا نہیں تھی۔ آپ کی صورت میں خود حضور علیہ السلام دوبارہ تشریف لائے تھے اور آپ کا دعویٰ ختم نبوت کے منافی نہیں تھا۔
’’مسیح موعود کا آنا بعینہ محمد رسول اﷲ کا دوبارہ آنا ہے۔ یہ بات قرآن سے صراحۃً ثابت ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ دوبارہ مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے آئیںگے۔‘‘
(الفضل قادیان ۱۷؍اگست ۱۹۱۵ئ)
’’اور آپ (مرزاقادیانی) کو چونکہ آنحضرتﷺ کا بروزی وجود عطاء کیاگیا تھا اس لئے آپ عین محمد تھے۔‘‘ (الفضل ۱۶؍ستمبر ۱۹۱۵ئ)
’’آنحضرتﷺ کے لئے دوبعث مقدر تھے۔ ایک بعث تکمیل ہدایت کے لئے۔ دوسرا بعث تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے۔‘‘ (الفضل ۱۴؍جنوری ۱۹۳۱ئ)
’’پھر مثیل اور بروز میں بھی فرق ہے۔ بروز میں وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ نام بھی ایک ہوجاتا ہے… پس فنافی الرسول اور مثیل ہونا بروز سے علیحدہ چیزیں ہیں۔ بروز اور اوتار ہم معنی ہیں۔‘‘ (الفضل ۲۰؍اکتوبر ۱۹۳۱ئ)
’’میں ابھی احمدیت میں بطور بچہ ہی کے تھا۔ جو میرے کانوں میں یہ آواز پڑی۔ مسیح موعود محمد است وعین محمد است۔‘‘ (الفضل قادیان ۱۷؍اگست ۱۹۱۵ئ)
مطلب یہ ہے کہ مرزاقادیانی اور حضور علیہ السلام ہر لحاظ سے ایک ہیں۔ لیکن دریافت طلب یہ امر ہے کہ آیا یہ دونوں جسم وروح ہر دو لحاظ سے ایک تھے۔ یا حضورﷺ کی صرف روح