یہ اقتباس مرزاقادیانی کے ارشاد ذیل کی تفسیر ہے۔ ’’پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں۔ مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔ بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پاکر اور اسی میں ہوکر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔‘‘ (نزول المسیح ص۲، خزائن ج۱۸ ص۳۸۰، ۳۸۱)
ظاہر ہے کہ اصل اور مظہر میں کوئی فرق نہیں ہواکرتا۔ اگر مرزاقادیانی اسی مظہر ہونے کی بناء پر خاتم الانبیاء بن سکتے ہیں تو انہیں لازماً شرعی حقیقی اور غیر امتی نبی بھی ہونا چاہئے۔ اس لئے ’’الفضل‘‘ کی ترجمانی صحیح ہے۔
’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۰)
’’مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ تورات اور انجیل اور قرآن کریم پر۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۹، خزائن ۱۷ ص۴۵۴)
’’سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
ْ(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
’’ماکان لی ان ادعی النبوۃ واخرج عن الاسلام والحق بقوم الکافرین‘‘ میرے لئے یہ کہاں مناسب ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے، اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافر بن جاؤں۔ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
’’میں پبلک اور حکام کی اطلاع کے لئے یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ کا مقدس نبی… اور بنی نوع انسان کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔‘‘
(ارشاد میاں محمود احمد، الفضل ۱۲؍جولائی ۱۹۳۵ئ)
’’میں مسلمانوں کے سامنے صاف صاف… اقرار کرتا ہوں کہ جناب خاتم الانبیائﷺ کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اسے بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘ (مرزاقادیانی کا بیان مندرجہ تبلیغ رسالت ج۲ ص۴۴، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۵۵)
جب پنجاب میں طاعون شروع ہوا تو مرزاقادیانی نے قادیان کے متعلق فرمایا: ’’قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۶)