تھوڑا وقت باقی ہے۔ سو یہ خیال گذرا کہ اب پیدائش آدم کی زحل کے وقت میں ہوگی۔ اس کی سرشت میں زحلی تاثیریں جو قہر اور عذاب وغیرہ ہے۔ رکھی جائیںگی۔ اس لئے اس کا وجود بڑے فتنوں کا موجب ہوگا۔ سو بناء اعتراض کی ایک ظنی امر تھا نہ یقینی۔ اس لئے ظنی پیرایہ میں انہوں نے انکار کیا اور عرض کیا کہ کیا تو ایسے شخص کو پیدا کرتا ہے جو مفسد اور خون ریز ہوگا اور خیال کیا کہ ہم زاہد اور عابد اور تقدیس کرنے والے اور ہر ایک بدی سے پاک ہیں اور نیز ہمارے پیدائش مشتری کے وقت میں ہے جو سعد اکبر ہے۔ تب ان کو جواب ملا کہ انی اعلم ما لا تعلمون یعنی تمہیں خبر نہیں کہ میں آدم کو کس وقت بناؤںگا۔ میں مشتری کے وقت کے اس حصے میں اس کو بناؤں گا۔ جو اس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے۔ لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے۔ سو آدم جمعہ کی آخیر گھڑی میں بنایا گیا۔ یعنی عصر کے وقت پیدا کیاگیا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۰۹،۱۱۰، خزائن ج۱۷ ص۲۷۹)
مرزاقادیانی اپنی تفسیر پر تمام ممکن اعتراضات کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ مثلاً لکھتے ہیں: ’’اگر یہ سوال ہو کہ جمعہ کی آخری گھڑی جو عصر کے وقت کی ہے۔ جس میں آدم پیدا کیاگیا۔ کیوں ایسی مبارک ہے اور کیوں آدم کی پیدائش کے لئے وہ خاص کی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے تاثیر کواکب کا نظام ایسا رکھا ہے کہ ایک ستارہ اپنے عمل کے آخری حصہ میں دوسرے ستارے کا کچھ اثر لے لیتا ہے۔ جو اس حصے سے ملحق ہو اور اس کے بعد میں آنے والا ہو۔ اب چونکہ عصر کے وقت سے جب آدم پیدا کیاگیا۔ رات قریب تھی۔ لہٰذا وہ وقت زحل کی تاثیر سے بھی کچھ حصہ رکھتا تھا اور مشتری سے بھی فیض یاب تھا۔ جو جمالی رنگ کی تاثیرات اپنے اندر رکھتا ہے۔ سو خدا نے آدم کو جمعہ کے دن عصر کے وقت بنایا۔ کیونکہ اس کو منظور تھا کہ آدم کو جلال اور جمال کا جامع بنادے۔ جیسا کہ اس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ خلقت بیدی‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۱۰، خزائن ج۱۷ ص۲۸۱حاشیہ)
لہٰذا نبص صریح اس بات کا فیصلہ ہوگیا کہ آدم جمعہ کے آخری حصہ میں پیدا کیاگیا۔
جب یہ طے ہوگیا کہ حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کے دن پیدا ہوئے تھے تو اس کے بعد مرزاقادیانی نے چھٹے دن کی دیگر خصوصیات بیان کی ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اور قرآن شریف بھی گوآہستہ آہستہ پہلے سے نازل ہورہا تھا۔ مگر اس کا کامل وجود بھی چھٹے دن ہی بروز جمعہ اپنے کمال کو پہنچا اور آیت ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ نازل ہوئی اور انسانی نطفہ بھی اپنے تغیرات کے چھٹے مرتبہ ہی خلقت بشریٰ سے پورا حصہ پاتا ہے۔ جس کی طرف آیت ’’ثم انشانا خلقا