کیا جاتا ہے۔ اس میں مرزاقادیانی نے قرآن کی متفرق آیات پر منطق، ریاضی، علم نجوم وغیرہ کے عمل سے ایک عجیب وغریب نظریہ مرتب کیا ہے۔ مرزاقادیانی کا استدلال کتاب کے کئی صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں مرزاقادیانی کی تحریر کے چند حصے ہی نقل کئے جاسکتے ہیں۔
مختصراً جو امور مرزاقادیانی ثابت کرنا چاہتے تھے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
۱…
دنیا کی عمر آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک سات ہزار سال ہے۔
۲…
مسیح موعود کو چھٹے ہزار کے آخری حصہ میں پیدا ہونا تھا۔
۳…
مسیح موعود کی پیدائش جمعے کے دن اور عصر کے وقت ہونی تھی۔
۴…
اب دیکھئے ان امور کو مرزاقادیانی نے کتنی صفائی کے ساتھ ثابت کردیا ہے۔
فرماتے ہیں: ’’اور دوسری دلیل زمانہ کے آخری ہونے پر یہ ہے کہ قرآن شریف کی سورۃ عصر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا یہ زمانہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہزار ششم پر واقعہ ہے۔ ایسا ہی آدم سے لے کر آخر تک دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔ خدائی کارخانۂ قدرت میں چھٹے دن اور چھٹے ہزار کو الٰہی فعل کی تکمیل کے لئے قدیم سے مقرر فرمایا گیا ہے۔ مثلاً حضرت آدم علیہ السلام چھٹے دن میں یعنی بروز جمعہ دن کے اخیر حصہ میں پیدا ہوئے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۹۱،۹۳، خزائن ج۱۷ ص۲۴۵،۲۴۸)
آیات مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدم چھٹے دن پیدا ہوا اور وہ آیات یہ ہیں۔ ’’ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً۰ ثم استویٰ الیٰ السماء فسوٰہن سبع سمٰوٰت وھو بکل شیٔ علیم۰ واذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ قالوا اتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک۰ قال انی اعلم ما لا تعلمون‘‘
متذکرہ بالا آیات میں جمعہ کے دن اور عصر کے وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن آپ مرزاقادیانی کی تفسیر ملاحظہ کریں۔ ’’فرشتوں کا جناب الٰہی میں عرض کرنا کہ کیا تو ایک مفسد کو خلیفہ بنانے لگا ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں۔ پس واضح ہو کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب خداتعالیٰ نے چھٹے دن آسمانوں کے سات طبقے بنائے اور ہر ایک آسمان کے قضاوقدر کا انتظام فرمایا اور چھٹا دن جو ستارہ سعد اکبر کا دن ہے۔ یعنی مشتری کا دن قریب الاختتام ہوگیا اور فرشتے جن کو حسب منطوق آیت واوحیٰ فی کل سماء امرہا سعد ونحسن کا علم دیاگیا تھا اور ان کو معلوم ہوچکا تھا کہ سعد اکبر مشتری ہے اور انہوں نے دیکھا کہ بظاہر اس دن کا حصہ آدم کو نہیں ملا۔ کیونکہ دن میں سے بہت ہی تھوڑ