استفادہ کیا ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں لغت اور عقل سلیم کے سوا دیگر کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا گیا)
پہلے سورۃ المؤمنون کی ایک آیت ’’وانا علیٰ ذھاب بہ لقادرون‘‘ کے متعلق مرزاقادیانی کی تفسیر پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اوّل اس سورۃ کا متعلقہ حصہ اور اس کا ترجمہ درج کردیا جائے۔
’’ولقد خلقنا فوقکم سبع طرائق وما کنا عن الخلق غافلین۰ وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض وانا علی ذھاب بہ لقادرون۰ فانشانا لکم بہ جنت من نخیل واعناب لکم فیہا فواکہ کثیرۃ وفیہا تاکلون (المؤمنون:۱۹)‘‘ اور ہم نے تمہارے اور پرسات دستے بنائے اور ہم مخلوق سے بے خبر نہیں اور ہم بادل سے ایک اندازہ سے پانی اتارتے ہیں۔ پھر اسے زمین میں ٹھہراتے ہیں اور ہم اسے لے جانے پر یقینا قادر ہیں۔ پھر ہم اس سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغ اگاتے ہیں ان میں تمہارے لئے بہت پھل ہیں اور ان سے تم کھاتے ہو۔
یہ عبارت اتنی واضح ہے کہ کسی تشریح کی حاجت نہیں ہے۔ اب آپ مرزاقادیانی کے فن کا نمونہ دیکھئے۔ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں۔ ’’اب اس تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کے آخری زمانے میں آنے کی قرآن شریف میں پیش گوئی موجود ہے۔ قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ سو برس تک مدت ٹھہرائی ہے۔ بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت ’’وانا علیٰ ذھاب بہ لقادرون‘‘ جس کے بحساب جمل ۱۲۷۴ھ عدد ہیں۔ اسلامی چاند کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عدووں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے۔‘‘
(ازالہ ص۶۷۵، خزائن ج۳ص۴۶۴)
آیت میں تو ’’اسلامی چاند کی سلخ کی راتوں‘‘ کی تاریخ دی گئی ہے۔ لیکن خود اسلامی چاند کے طلوع کی تاریخ مرزاقادیانی کے نام میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کے متعلق مرزاقادیانی کی تصریح حسب ذیل ہے۔ ’’چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعد المائتین ہے۔ ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر