اگر یہ محض خواب ہوتا تو بھی اس کا مقام نہایت ارفع تھا۔ کیونکہ ایک نبی کا خواب ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے خود اس خواب کا مقام بھی متعین کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اور پھر میں نے ایک دالان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ اس میں چراغ روشن ہے گویا رات کا وقت ہے اور اسی الہام مندرجہ بالا کو چند آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اس سے یہ دونوں فقرے نقل کر رہے ہیں۔ گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں وہ موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو میں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری ہیں۔‘‘
(ریویو بر مباحثہ چکڑالوی وبٹالوی ص۴، خزائن ج۱۹ ص۲۰۹حاشیہ)
اب بتائیے ہم کیا تنقید کریں؟ اگر مرزاقادیانی سورۂ رحمن میں اس زائد ٹکڑے کا خاص مقام بھی بتادیتے تو ان کے معتقد قاری کے لئے زیادہ آسانی ہو جاتی۔ ضمناً قرآن میں اس پیوند کے لئے ایک رفوگر کا انتخاب بھی قابل داد ہے۔
یہ بیان کر دینا مناسب ہے کہ قرآن کی جس آیت ’’وجمع الشمس والقمر‘‘ کو مرزاقادیانی نے اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے۔ وہ سورۃ قیامت میں ہے اور اس میں ظہور مسیح موعود اور رمضان میں سورج گرہن یا چاند گرہن کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ آیت کا سیاق وسباق حسب ذیل ہے۔
’’لا اقسم بیوم القیمۃ ولا اقسم بالنفس اللوامۃ ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ بلی قادرین علیٰ ان نسوی بنانہ بل یرید الانسان لیفجر امامہ یسئل ایان یوم القیمۃ فاذا برق البصر وخسف القمر وجمع الشمس والقمر۰ یقول الانسان یومئذ این المفر کلا لاوزر۰ الیٰ ربک یومئذٍ المستقر (القیمۃ:۱۲)‘‘ نہیں میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں اور نہیں میں ملامت کرنے والا نفس کی قسم کھاتا ہوں۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریںگے۔ ہاں ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کے سارے اعضاء کو پورا کریں۔ بلکہ انسان چاہتا ہے کہ آگے آگے بدکاری کرتا چلا جائے۔ پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہے۔ سو جب نظر خیرہ ہو جائے گی اور چاند تاریک ہو جائے گا اور سورج اور چاند اکٹھے ہو جائیںگے۔ اس دن انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جانا ہے۔ ہرگز نہیں، کوئی جائے پناہ نہیں۔ تیرے رب کی طرف اس دن ٹھکانا ہے۔ (نوٹ: ترجمہ مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی تفسیر سے نقل کیاگیا ہے)
مرزاقادیانی نے قرآن کی تفسیر میں ابجد کے لحاظ سے حروف کی قیمتوں سے بھی