’’د‘‘ خط ’’ن‘‘ سے مساوی ہے اور خط ’’ن‘‘ خط ’’ل‘‘ سے مساوی تو ماننا پڑے گا کہ خط ’’د‘‘ خط ’’ل‘‘ سے مساوی اور یہی مدعا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۶۳، خزائن ج۱۷ ص۱۹۲)
چاندوسورج گرہن
احمدیہ جماعت کی طرف سے مرزاقادیانی کی صداقت کے لئے ایک حدیث میں دی ہوئی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ اس پیش گوئی کا مضمون یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی نشانی یہ ہے کہ اس زمانے میں رمضان کے مہینے میں سورج اور چاند کو خاص تاریخوں پر گرہن لگے گا۔ یہ روایت فن حدیث کے معیار سے ضعیف قسم کی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ پیش گوئی کم ازکم اپنے ظاہری الفاظ کے مطابق پوری نہیں ہوئی۔ لیکن اس وقت ہماری غرض اصل حدیث پر بحث کرنا نہیں۔ بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ کس طرح مرزاقادیانی نے اس حدیث کی تائید قرآن سے حاصل کی ہے۔ تحفہ گولڑویہ میں مرزاقادیانی نے آیت ’’وجمع الشمس والقمر‘‘ کی نسبت لکھا ہے کہ یہ اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ آخری زمانے میں مسیح موعود کے ظاہر ہونے کے وقت سورج اور چاند کو ایک ہی مہینہ اور وہ بھی رمضان میں گرہن لگے گا۔ یہاں مرزاقادیانی نے آیت مذکور کی اس تفسیر کے لئے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود مرزاقادیانی کو اس معاملے پر پورا اطمینان حاصل نہ ہوا۔ چنانچہ تحفہ گولڑویہ کی تصنیف کے چند ماہ بعد جب وہ ایک رسالہ بعنوان ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی تحریر فرمارہے تھے تو انہیں قرآن کی ایک ایسی آیت مل گئی جس میں بالکل واضح طور پر رمضان میں سورج اور چاندکے گرہن کا ذکر تھا اور وہ آیت یہ ہے۔ ’’خسف القمر والشمس فی رمضان۰ فبای الاء ربکما تکذبٰن‘‘ آپ کہیں گے کہ یہ عبارت تو قرآن میں موجود نہیں ہے۔ یہ درست ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ مرزاقادیانی کی زبانی اس کا شان نزول سنئے۔ ’’میں جب اشتہار کو ختم کر چکا۔ شاید دو تین سطریں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا۔ یہاں تک کہ میں بمجبوری کاغذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سوگیا تو خواب میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبداﷲ چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے۔ میں نے ان دونوں کو مخاطب کر کے یہ کہا۔ ’’خسف القمر والشمس فی رمضان فبای الاء ربکما تکذبٰن‘‘ یعنی چاند اور سورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا۔ پس تم اے دونون صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کررہے ہو۔ پھر میں خواب میں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ الاء سے مراد اس جگہ میں ہوں۔‘‘ (حاشیہ ریویو بر مباحثہ چکڑالوی وبٹالوی ص۴، خزائن ج۱۹ ص۲۰۹)