یا آخر کو۔ مگر دو سلسلوں کی درمیانی مماثلت کو جس کی تحقیق وتفتیش زیادہ وقت چاہتی ہے دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ بلکہ اوّل اور آخر پر قیاس کر لیا کرتے ہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۵۸، خزائن ج۱۷ ص۱۸۶)
بزعم خود موسوی سلسلہ کے پہلے خلیفہ یشوع بن نون کی حضرت ابوبکرؓ سے مکمل مماثلت ثابت کرنے کے بعد مرزاقادیانی نے اپنے استدلال کے مطابق اپنی مماثلت حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے ثابت کرنا تھی۔ لیکن چند وجوہ سے مرزاقادیانی نے اس مہم کو براہ راست سر نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح ابن مریم کی زندگی ایک ایسی ’’غریب وسادہ ورنگین داستان‘‘ ہے کہ اس سے مماثلت ثابت کرنا مرزاقادیانی کے لئے ممکن نہ تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی نے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنی مماثلت حضرت ابوبکرؓ سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں مرزاقادیانی نے ایک عالمگیر اور مہتمم بالشان نظریہ پیش کیا ہے۔ جس کا نام انہوں نے ’’نظریہ استدرات‘‘ رکھا ہے۔ ہم معلوم نہیں کر سکے کہ یہ ’’استدرات‘‘ کس سے مشتق ہے۔ مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں اس نظریے کی تشریح یہ ہے۔
’’کمال ہر ایک چیز کا استدرات کو چاہتا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۶۰، خزائن ج۱۷ ص۱۸۹)
’’استدرات کے لفظ سے میری مراد یہ ہے کہ جب ایک دائرہ پورے طور پر کامل ہو جاتا ہے تو جس نقطہ سے شروع ہوا تھا اسی نقطہ سے جا ملتا ہے اور جب تک اس نقطہ کو نہ ملے تب تک اس کو دائرہ کاملہ نہیں کہہ سکتے۔‘‘ (حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۶۰، خزائن ج۱۷ ص۱۸۹)
’’یہی وجہ ہے کہ تمام بسائط گول شکل پر پیدا کئے گئے ہیں۔ تاکہ خداکے ہاتھ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ناقص نہ ہوں۔ اسی بناء پر ماننا پڑتا ہے کہ زمین کی شکل بھی گول ہے۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۰، خزائن ج۱۷ ص۱۸۹)
’’اور نیز اس لئے بسائط کا گول رکھنا خداتعالیٰ نے پسند کیا کہ گول میں کوئی جہت نہیں ہوتی اور یہ امر توحید کے بہت مناسب حال ہے۔ غرض صنعت کا کمال مدور شکل سے ہی ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں انتہائی نقطہ اس قدر اپنے کمال کو دکھلاتا ہے کہ پھر اپنے مبداء کو جاملتا ہے۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۲، خزائن ج۱۷ ص۱۹۰)
اس گول مول دلیل کے دو تقاضے ہوںگے۔ ایک یہ کہ موسوی سلسلہ کے پہلے خلیفہ یشوع بن نون کو اس سلسلہ کے آخری خلیفہ یعنی عیسیٰ علیہ السلام سے مماثلت ہوگی اور دوسرا یہ کہ اسی طرح محمدی سلسلہ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کو آخری خلیفہ یعنی مرزاقادیانی سے مشابہت ہوگی۔