کرنے والا وہ مسیح خاتم خلفائے محمدیہ ہے جو سلسلۂ خلافت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۵۶،۵۷، خزائن ج۱۷ ص۱۸۲،۱۸۳)
اس کے بعد مرزاقادیانی نے چند باتیں گنوائی ہیں۔ جن کی رو سے ان کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ کی مماثلت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ یوشع بن نون سے ظاہر ہوتی ہے۔ فی الواقع ان دو حضرات کی سیرت اور احوال میں کوئی خاص امر مشترک نہیں ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے اپنی غرض کے لئے کاوش کر کے کچھ نہ کچھ تلاش کر ہی لیا ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکرؓ کی حضرت یشوع بن نون کے ساتھ ایک اور عجیب مناسبت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت کی اطلاع سب سے پہلے حضرت یوشع کو ہوئی اور خدا نے بلاتوقف ان کے دل میں وحی نازل کی جو موسیٰ مرگیا تا یہود حضرت موسیٰ کی موت کے بارے میں کسی غلطی یا اختلاف میں نہ پڑ جائیں۔ جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اوّل سے ظاہر ہے۔ اسی طرح سب سے پہلے آنحضرتﷺ کی موت پر حضرت ابوبکرؓ نے یقین کامل ظاہر کیا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۵۷، خزائن ج۱۷ ص۱۸۴)
یہ تو مماثلت کی پہلی کڑی ہوئی۔ لیکن اس کے بعد مرزاقادیانی کے سامنے ایک بڑی مشکل تھی۔ اگر حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ اور ان کے بعد دیگر خلفاء کا شمار کیا جاتا ہے تو ایک تو ان کی تعداد بارہ سے تجاوز کر جاتی ہے اور مرزاقادیانی کی خواہش کئی دیگر مصلحتوں کی بناء پر اس تعداد کو ۱۲تک محدود کرنے کی ہے۔ یہ دقت اتنی اہم نہ تھی۔ مرزاقادیانی تعداد کی نسبت کسی نہ کسی تاویل کے ذریعے کوئی صورت پیدا کرلیتے۔ لیکن نہایت بڑی مشکل یہ تھی کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ کے وقت بھی مسلمانوں کا ایک خلیفہ موجود تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی اپنے آپ کو آخری خلیفہ کی صورت میں پیش نہ کرسکتے تھے۔ انگریزی دور میں ایک حکمران خلیفہ کے منصب کا دعویٰ کرنا ویسے بھی پرازخطر تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی نے حضرت ابوبکرؓ کے بعد محمدی سلسلۂ خلافت کو ایک دوسری صورت میں پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ کے علاوہ دیگر خلفائے راشدین اور بعد کے خلفاء اس سلسلہ میں شامل نہیں ہیں۔ بلکہ قرآنی آیت کے مطابق جو خلافت مسلمانوں میں قائم رہی ہے۔ اس سے مراد وہ دیگر اشخاص ہیں جن کو اصطلاح عام میں مجدد کہا جاتا ہے۔ ویسے ان اصحاب کی شخصیت اور تعداد متفق علیہ نہیں ہے اور نہ ان کے حالات موسیٰ علیہ السلام کے بعد میں آنے والے بنی اسرائیل کے انبیاء اور مصلحین سے کوئی خاص مماثلت رکھتے ہیں۔
درمیانی خلفاء کی عدم مماثلت کی نسبت مرزاقادیانی کی توجیہہ یہ ہے کہ: ’’کسی دو لمبے سلسلوں میں باہم مشابہت کو دیکھنے والے طبعاً یہ عادت رکھتے ہیں کہ یا اوّل کو دیکھا کرتے ہیں اور