ہے جس طرح ایک اور ایک دو ہوتے ہیں۔ ان آیات پر مرزاقادیانی کی طویل بحث میں ہم صرف چند اقتباسات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
’’پہلی دلیل اس بات پر کہ میں ہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں۔ یہ ہے کہ میرا یہ دعویٰ مہدی اور مسیح ہونے کا قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے۔ یعنی قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفوں کے خاتم الانبیاء ہیں۔ اس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہوگا۔ تفصیل اس دلیل کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمارے نبیﷺ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل ٹھہرایا ہے اور آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جو مسیح موعود تک سلسلہ خلافت ہے اس سلسلہ کو خلافت موسویہ کے سلسلہ سے مشابہ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ ’’انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہداً علیکم کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولاً‘‘ یہ تو وہ آیت ہے جس سے آنحضرتﷺ کی مماثلت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ثا بت ہوتی ہے۔ لیکن جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلۂ خلافت موسویہ اور سلسلۂ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعی اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلۂ نبوت محمدیہ کے خلیفے سلسلۂ نبوت موسویہ کے مشابہ ومماثل ہیں۔ وہ یہ آیت ہے ’’وعد الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم‘‘ یعنی خدا نے ان ایمانداروں سے جو نیک کام بجا لاتے ہیں۔ وعدہ کیا ہے کہ ان میں سے زمین پر خلیفے مقرر کرے گا۔ انہی خلیفوں کی مانند جو ان سے پہلے کئے تھے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۵۶،۵۷، خزائن ج۱۷ ص۱۸۲،۱۸۳)
ہم قارئین کو مرزاقادیانی کی تفسیر سے محظوظ ہونے میں آزاد چھوڑنا چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے تنقید نہیں کرنا چاہتے اور نہ اس کی یہاں گنجائش ہے۔ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ عربی کا معمولی علم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ ان دو آیات میں کسی مماثلت کا ذکر نہیں ہے اور دوسری آیت میں موسوی سلسلۂ خلافت کی نسبت تو کوئی اشارہ یا کنایہ تک نہیں ہے۔ بہرحال مرزاقادیانی کا استدلال جاری ہے۔
’’اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیش نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدی خلیفوں کی موسوی خلیفوں میں مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان دونوں سلسلوں میں مماثلت ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابوبکرؓ ہے اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر