منہم لما یلحقوا بہم‘‘ غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں ’’منعم علیہم‘‘ کی جماعتیں ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے۔ آیت ’’صراط الذین انعمت علیہم‘‘ میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دو ہی ہیں۔ ایک صحابہؓ کی جماعت۔ دوسری وآخرین منہم کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۶، خزائن ج۱۷ ص۲۱۷)
’’خداتعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں یہ دعاء سکھلائی ہے کہ وہ اس فریق کی راہ خداتعالیٰ سے طلب کرتے ہیں جو منعم علیہم کا فریق ہے اور منعم علیہم کے کامل طور پر مصداق دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گروہ جماعت مسیح موعود۔ کیونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرتﷺ کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں اور درمیانی گروہ جس کو رسول اﷲﷺ نے فیج اعوج کے نام سے موسوم کیا اور جن کی نسبت فرمایا ہے۔ ’’لیسومنی ولست منہم‘‘ یعنی وہ ولگ مجھ میں سے نہیں ہیں اور نہ میں ان سے ہوں۔ یہ گروہ حقیقی طور پر منعم علیہم نہیں ہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑیہ ص۸۰، خزائن ج۱۷ ص۲۲۴)
’’خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے ابتداء سے اس امت میں دوگروہ ہی تجویز فرماتے ہیں اور انہی کی طرف سورۃ فاتحہ کے فقرہ ’’انعمت علیہم‘‘ میں اشارہ ہے۔(۱)… ایک اوّلین جو جماعت نبوی ہے۔ (۲)…دوسرے آخرین جو جماعت مسیح موعود ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۸۱، خزائن ج۱۷ ص۲۲۶)
’’پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دعاء پڑھو کہ ’’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم‘‘ تو دل میں یہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۶، خزائن ج۱۷ ص۲۱۸)
’’اس جگہ ان لوگوں پر سخت افسوس کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث ہیں اور سورۃ فاتحہ پر ہمیشہ زور دیتے ہیں کہ اس کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی۔ حالانکہ سورۃ فاتحہ کا مغز مسیح موعود کی تابعداری ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص۷۷، خزائن ج۱۷ ص۲۱۹)
مرزاقادیانی نے اپنے حق میں ایک نہایت پیچ درپیچ اور بزعم خود نہایت مکمل اور قوی دلیل قرآن کی دو آیتوں سے قائم کی ہے۔ ان میں سے ایک آیت ’’انا ارسلنا الیکم رسولا شاہداً علیکم کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولاً‘‘ ہے اور دوسری آیت وہ ہے جو آیۂ استخلاف کے نام سے مشہور ہے۔ بظاہر ان دونوں آیتوں کا مرزاقادیانی کے دعویٰ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے ان کی تفسیر سے اپنی صداقت اس طرح ثابت کر دی ہے