’’ خلاصہ کلام یہ کہ آیت تبت یدا ابی لہب جو قرآن شریف کے آخر میں ہے۔ آیت مغضوب علیہم کی ایک شرح ہے جو قرآن شریف کے اول میں ہے۔ کیونکہ قرآن شریف کے بعض حصے بعض کی تشریح ہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۶، خزائن ج۱۷ص۲۱۷)
گویا مغضوب علیہم میں جن مکذب علماء کا ذکر ہے۔ قرآن کے آخر میں ایک مولوی کی مثال کے ذریعے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
مرزا قادیانی نے قرآن کی آخری چار سورتوں کا ذکر کیا تھا۔ ان میں سے ایک کی تشریح تو آپ نے ملاحظہ کرلی۔ مرزا قادیانی کی تفسیر کے مطابق آخری تین سورتوں میں سے سورۃ اخلاص ولاالضالین کی تشریح ہے اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص کی مزید تشریح کرتی ہیں اور یہ ساری سورتیں اجتماعی طور پر مرزا قادیانی کے زمانہ اور ان کی ذات کے متعلق پیش گوئی کے طور پر ہیں۔ اس کی وضاحت کے لئے مرزا قادیانی آخری تین سورتوں کی عبارت نقل کرنے کے بعد ان کا جو ترجمہ (تفسیر نہیں) بیان فرمایا ہے۔ اس کا ایک اقتباس یہ ہے: ’’(ترجمہ) تم اے مسلمانو! نصاریٰ سے کہو کہ وہ اﷲ ایک ہے۔ اﷲ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے اور تم جو نصاریٰ کا فتنہ دیکھو گے اور مسیح موعود کے دشمنوں کا نشانہ بنو گے یوں دعا مانگا کرو کہ میں تمام مخلوق کے شر سے … … خدا کی پناہ مانگتا ہوں…… اور میں اس اندھیری رات کے شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور انکار مسیح موعود کے فتنہ کی رات ہے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۸،۷۷، خزائن ج۱۷ص۲۲۱،۲۲۰)
اس ترجمہ کے بعد مرزا قادیانی فرماتے ہیں: ’’غرض قرآن نے اپنے رول میں بھی ’’مغضوب علیہم‘‘ اور ’’ضالین‘‘ کا ذکر فرمایا ہے اور اپنے آخر میں بھی جیسا کہ آیت ’’لم یلد ولم یولد‘‘ بصراحت اس پر دلالت کرتی ہے اوریہ تمام اہتمام تاکید کے لئے کیاگیا اور نیز اس لئے کہ تامسیح موعود اور غلبۂ نصرانیت کی پیش گوئی نظری نہ رہے اور آفتاب کی طرح چمک اٹھے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۸، خزائن ج۱۷ ص۲۲۲)
یہ تو ہوئی سورۃ فاتحہ میں مغضوب علیہم اور ضالین کے گروہ سے بچنے کی تشریح اور اس سورت میں جو مثبت دعا یعنی ’’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم‘‘ ہے تو یہ بھی مرزاقادیانی کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہے۔
’’سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ ایک یہ دعاء کہ خداتعالیٰ اس جماعت میں داخل رکھے جو مسیح موعود کی جماعت ہے۔ جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے۔ ’’واخرین