اس کا نمونہ ملاحظہ ہو۔
’’اور یہ معنی جو ابھی میں نے سورۃ فاتحہ کی دعا غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین کے متعلق بیان کئے ہیں۔ انہی کی طرف قرآن شریف کی آخری چارسورتوں میں اشارہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ تبت کی پہلی آیت تب یدا ابی لہب وتب۔ اس موذی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مظہرجمال احمد یعنی احمد مہدی کا مکفر اور مکذب اور مہین ہوگا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۷۴، خزائن ج۱۷ص۲۱۴)
یہ بتانا تو غیر ضروری ہے کہ ’’مظہرجمال احمدی‘‘ اور ’’احمدی مہدی‘‘ سے مرزا قادیانی کی مراد اپنی ذات ہے۔ جس شخص کو انہوں نے ابی لہب کا خطاب عنایت کیا ہے۔ وہ ان کے پہلے زمانے کے دوست اور بعد کے مخالف مولوی محمد حسین صاحب ہیں۔ گویا قرآن میں ابی لہب سے مراد مولوی محمدحسین ہے۔ اس دعوے کی تائید میں مرزا قادیانی کے پاس نہایت وزنی دلیل ہے اور وہ یہ کہ مولوی محمدحسین کی طرف سے مرزا قادیانی کی تکذیب سے کئی سال پہلے مرزا قادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں ایک الہام درج کیا تھا۔ جس میں قرآنی آیت کا یہ حصہ بھی شامل ہے۔ وہ الہام یہ ہے: ’’اذیمکر بک الذی کفر۰ اوقدلی یاہامان لعلی اطلع علی الہ موسیٰ وانی لاظنہ من الکاذبین تبت یدا ابی لہب وتب ماکان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا وما اصابک فمن اﷲ‘‘
اس عبارت کا ترجمہ مرزا قادیانی نے یوں ارشاد فرمایا ہے: ’’یعنی یاد کرو وہ زمانہ جبکہ ایک مولوی تجھ پر کفر کا فتویٰ لگائے گا اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑسکے کہے گا کہ میرے لئے اس فتنہ کی آگ بھڑکا۔ یعنی ایسا کر اور اس قسم کا فتویٰ دے دے کہ تمام لوگ اس شخص کو کافر سمجھ لیں۔ تا میں دیکھوں کہ اس کا خدا سے کیا تعلق ہے۔ یعنی یہ جو موسیٰ کی طرح اپنا کلیم اﷲ ہونا ظاہر کرتا ہے کیا خدا اس کا حامی ہے یا نہیں اور میں خیال کرتاہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔ ہلاک ہوگئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے (جبکہ اس نے یہ فتویٰ لکھا) اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۷۵،۷۴، خزائن ج۱۷ص۲۱۵)
’’غرض براہین احمدیہ کے اس الہام میں سورۃ تبت کی پہلی آیت کا مصداق اس شخص کو ٹھہرایا ہے جس نے سب سے پہلے خدا کے مسیح موعود پر تکفیر اور توہین کے ساتھ حملہ کیا۔‘‘
’’یہ تفسیر سراسر حقانی ہے اور تکلف اور تصنع سے پاک ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۷۵، خزائن ج۱۷ص۲۱۶)