کے نزدیک ’’یہ ایسی نص صریح ہے کہ اس سے انکار قرآن سے انکار ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۷۴، خزائن ج۱۷ص۲۱۴)
آیت کے دوسرے حصے کی تشریح کرتے ہوئے مرزا قادیانی فرماتے ہیں: ’’آیت کا دوسرا حصہ جو الضالین ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں اے ہمارے پروردگار! اس بات سے بھی بچا کہ ہم عیسائی بن جائیں۔‘‘ لیکن یہاں بھی اصل مقصد مرزا قادیانی کے متعلق پیش گوئی کرنا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس زمانے میں جبکہ مسیح موعود ظاہر ہوگا۔ عیسائیوں کا بہت زور ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت ایک سیلاب کی طرح زمین پر پھیلے گی اور اس قدر طوفان ضلالت جوش مارے گا کہ بجزدعا کے اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۷۲،۷۱، خزائن ج۱۷ص۲۰۸،۲۰۵)
لیکن ویسے ضالین کے گروہ میں شامل ہونا اتنا برا نہیں جتنا کہ مغضوب علیہم کے زمرے میں آجانا۔ کیونکہ: ’’ضالین پر بھی یعنی عیسائیوں پر بھی اگرچہ خدا تعالیٰ کا غضب ہے کہ وہ خدا کے حکم کے شنوا نہیں ہوئے۔ مگر اس غضب کے آثار قیامت کو ظاہر ہوں گے اور اس جگہ مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد نہیں جن پر بوجہ تکفیر وتوہین وایذاء واراۂ قتل مسیح موعود کے دنیا میں ہی غضب الٰہی نازل ہوگا۔ یہ میرے جانی دشمنوں کے لئے قرآن کی پیش گوئی ہے۔
(تحفہ گولڑویہ ص۷۴، خزائن ج۱۷ص۲۱۳)
’’غرض اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اس عاجز کی نسبت قرآن شریف نے اپنی پہلی سورت میں ہی گواہی دے دی ورنہ ثابت کرنا چاہئے کہ کن مغضوب علیہم سے اس سورت میں ڈریا گیا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۳، خزائن ج۱۷ص۲۱۲)
سورۃ فاتحہ کی اس تشریح کے مطابق عیسائیوں کی پوزیشن کچھ عجیب وغریب سی ہے۔ ایک طرف ان کو ضالین قراردے کر مسلمانوں کو ان کے فتنہ سے بچنے کی دعا سکھلائی گئی ہے اور دوسری طرف مرزا قادیانی کے نزدیک انہی عیسائیوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے کہ قیامت تک ان کی یہود پر بالادستی قائم رکھی جائے گی۔ اس کی تائید میں مرزا قادیانی نے یہ آیت پیش کی ہے: ’’وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ‘‘ گویا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دینا اس نبی کی تعلیم کی پیروی کرنا ہے۔
سورۃ فاتحہ کی اس تفسیر کے لئے مرزا قادیانی نے قرآن مجید کے دیگر مقامات سے بھی تائید حاصل کی ہے۔ آخری چند سورتوں کے مضمون سے جو مضمون مرزا قادیانی نے پیدا کیا ہے۔