پر ہے کہ اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین یعنی اے ہمارے خدا ہمیں سیدھی راہ عنایت کر جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور بچا ہم کو ان لوگوں کی راہ سے جن پر تیرا غضب ہے اور جو راہ بھول گئے ہیں۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ اسلام کے تمام اکابر وآئمہ کے اتفاق سے مغضوب علیہم سے مراد یہودی لوگ ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔‘‘
ضالین اور مغضوب علیہم کے یہ محدود معنی کرنے سے بھی مرزا قادیانی کا کام نہیں بن سکتا۔ لیکن مرزا قادیانی قدم بقدم اپنے مقصد تک پہنچتے ہیں۔ متذکرہ بالا تشریح کے بعد وہ مغضوب علیہم کے معنی اور بھی محدود کردیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ(تحفہ گولڑویہ ص۶۸، خزائن ج۱۷ص۲۰۱) ’’اس سے مراد عام یہود نہیں۔ بلکہ وہ جنہوں نے حضرت مسیح کو بہت ستایا اور دکھ دیا تھا اور ان کا نام کافر اور لعنتی رکھا تھا اور ان کے قتل کرنے میں کچھ فرق نہ کیا تھا اور توہین کو ان کی مستورات تک پہنچادیا تھا۔‘‘ اس مزید تشریح کے لئے غالباً مرزا قادیانی کو کوئی سند نہیں ملی۔ بہرحال یہ تو طے ہوگیا کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود کا یہ خاص گروہ ہے۔ اس پر مرزا قادیانی ہماری طرف سے یہ سوال پوچھتے ہیں: ’’تو پھر مسلمانوں کو اس دعا سے کیا تعلق تھا اور کیوں یہ دعا ان کو سکھلائی گئی؟۔‘‘ (ایضاً)
مرزا قادیانی کی بعثت سے پہلے یہ واقعی ایک معمہ تھا۔ لیکن اب معاملہ صاف ہوگیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اب معلوم ہوا کہ یہ تعلق تھا کہ اس جگہ بھی پہلے مسیح کی مانند ایک مسیح آنے والا تھا اور مقدر تھا کہ اس کی بھی ویسی ہی توہین اور تکفیر ہو۔ لہٰذا یہ دعا سکھلائی گئی جس کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا! ہمیںاس گناہ سے محفوظ رکھ کہ ہم تیرے مسیح موعود کو دکھ دیںاور اس پر کفر کا فتویٰ لکھیں اور اس کو سزا دلانے کے لئے عدالتوں کی طرف کھینچیں اور اس کی پاک دامن اہل بیت کی توہین کریں اور اس پر طرح طرح کے بہتان لگائیں اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۸، خزائن ج۱۷ص۲۰۱)
’’ان معنوں کے لئے یہ قرینہ کافی ہے کہ مغضوب علیہم صرف ان یہودیوں کا نام ہے جنہوں نے حضرت مسیح کو ایذا دی تھی اور حدیثوں میں آخری زمانہ کے علماء کا نام یہود رکھا گیا ہے۔ یعنی وہ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکفیر وتوہین کی تھی۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۷۳، خزائن ج۱۷ص۲۱۲)
یہ کوئی ذوقی معنی نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں اختلاف کی گنجائش ہو۔ مرزا قادیانی