کے بہت سے توابع ہوں…… پس اس سورۃ کو ام القرآن کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک ایسی سورت ہے جس میں مطالب قرآنی کی جامعیت اور مرکزیت ہے یا جو قرآن کی تمام سورتوں میں اپنی نمایاں اور مقدم جگہ رکھتی ہے۔…… چنانچہ اس سورۃ کے مطالب پر نظر ڈالنے میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصے میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ سورۃ فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال بیان موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے اور صرف اس سورۃ کے مطالب ذہن نشین کرلے۔ جب بھی وہ دین حق اور خدا پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کرلے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے…… ایک طرف زیادہ سے زیادہ مختصر حتیٰ کہ گنے ہوئے الفاظ ہیں۔ دوسری طرف ایسے جچے تلے الفاظ کہ ان کے معانی سے پوری وضاحت اور دل نشینی پیدا ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی نہایت سیدھا سادہ بیان ہے۔ کسی طرح کا پیچ وخم نہیں۔ کسی طرح کا الجھائو نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے۔ اتنی ہی زیادہ سہل اور دل نشین بھی ہوتی ہے اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھائو جس قدر بھی ہوتا ہے بناوٹ اور تکلیف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہوگی ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دل نشین بھی ہو۔‘‘ سورۃ فاتحہ کے اس مقام سے مرزا قادیانی بھی بے خبر نہ تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی تفسیر میں غالباً سب سے زیادہ توجہ اسی سورۃ پر دی ہے۔ اس سورت میں ایسے کوئی الفاظ موجود نہیں ہیں جن سے مرزا قادیانی کے دعویٰ کی تائید کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ لیکن اس کے باوجود مرزا قادیانی نے اس سورۃ کو اپنے حق میں ایک زبردست دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سورت کی نسبت مرزا قادیانی کی تاویلات ان کی کتب میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ مثال کے لئے صرف ایک کتاب کا حوالہ کافی ہوگا۔
مختصراً مرزا قادیانی کا استدلال یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں ایک دعا مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس دعا کے ذریعے ہم مرزا قادیانی کی جماعت میں شامل ہونے کی خواہش کرتے ہیں اور عیسائیت اور مرزا قادیانی کے مخالف مسلمانوں یا ان کے مولویوں کے شر سے پناہ مانگتے ہیں۔ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ کس عجیب وغریب منطق سے مرزا قادیانی اس نتیجے تک پہنچے ہیں۔ ان کی کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۶۶، خزائن ج۱۷ص۱۹۸) کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں: ’’(میری صداقت کی) تیسری دلیل بھی قرآن شریف سے ہی مستنبط ہے۔ وہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت کی بنا