کے وجود کی ضرورت تھی تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس کامل کا کام قرآن کے معانی اور تفاسیر بیان کرنے سے شروع ہوتا اور اسی پر ختم ہوجاتا۔
لیکن مرزاقادیانی کی کتب سے قرآن کی تفسیر اور ترجمہ کے علم میں کوئی قابل لحاظ اضافہ نہیں ہوا۔ سارے قرآن کی کوئی تفسیر یا ترجمہ مرزاقادیانی کی تصانیف میں شامل نہیں ہے۔ بلکہ کسی ایک سورت کی بھی مکمل تفسیر مرزاقادیانی نے نہیں کی۔ جو مقامات مفسرین میں اختلاف اور نزاع کا موضوع ہیں۔ ان کی طرف مرزاقادیانی نے چنداں توجہ نہیں کی۔ ان کی یہ بے اعتنائی قرآن مجید سے ناواقفیت پر محمول نہیں ہوسکتی۔ ان کی کتب پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ مرزاقادیانی نے قرآن کا نہایت غور اور محنت سے مطالعہ کیا تھا۔ لیکن یہ سب مطالعہ ایک ہی مقصد کو سامنے رکھ کر کیاگیا تھا اور وہ یہ تھا کہ قرآن میں ایسی آیات تلاش کی جائیں جو کسی نہ کسی طرح مرزاقادیانی کے حق میں یا ان کے مخالفین کے موقف کے خلاف استعمال ہو سکیں۔ (خواہ اس استعمال میں کتنی ہی دورازکار اور خلاف عقل تاویلات سے کام لینا پڑے) یہ ایک الگ سوال ہے کہ مرزاقادیانی اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے۔ اتنی بات واضح ہے کہ مرزاقادیانی کا مقصد قرآن کی تفسیر نہیں ہے۔ بلکہ قرآن کی امداد سے اپنے دعاوی کا ثبوت مہیا کرنا ہے۔ حالانکہ ان کے دعویٰ کی رو سے خود ان کے آنے کا مقصد قرآن کی تفسیر کرنا تھا۔
فہم قرآن کی نسبت اپنی استعداد پر مرزاقادیانی نے ایک اور پہلو سے بھی انحصار کیا ہے۔ اپنے مخالف علماء کو انہوں نے ایک مستقل چیلنج دے رکھا تھا کہ ان کے ساتھ قرآن کی تفسیر کا مقابلہ کریں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خدا نے ان کو قرآنی معارف کا علم بطور ایک معجزہ کے دیا ہے اور اس میں کوئی مولوی ان کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہیں کر سکتا اور اگر کوئی مقابلہ کرے گا تو لازماً شکست کھائے گا۔
جیسا کہ اس قسم کے مقابلے کی دعوتوں کا عام طور پر حال ہوتا ہے۔ عملاً مرزاقادیانی کا یہ مقابلہ کسی مولوی سے نہ ہوسکا اور مرزاقادیانی اس امر کو بھی اپنی صداقت اور فتح کا ایک نشان قرار دیا۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں انہوں نے اپنی کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۱،۲، خزائن ج۱۷ ص۸۷،۸۸) کے شروع میں عربی زبان میں ایک اشتہار کے ذریعہ اپنے سابق چیلنج کا اعادہ کیا ہے اور ساتھ ہی لکھا ہے کہ ۱۹۰۰ء میں انہوں نے اپنے مخالف علماء اور بالخصوص پیر مہر علی شاہ صاحب کو مقابلہ کے لئے بلایا تھا اور لکھا تھا کہ اب آخری فیصلہ یہ ہے کہ وہ سنت قدیمہ اکابر اسلام کے رو سے اس طرح پر ایک مباہلہ کی صورت پر مجھ سے مقابلہ کریں کہ قرآن شریف کی چالیس آیتیں قرعہ اندازی کے ذریعہ