ذریعہ لئے کیوں ضروری ہوگیا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے ہم میں ایک ایسا شخص موجود ہو جس کو ’’یقینی طور پر نبیوں کی طرح خداتعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہو۔‘‘
ہندوستان اور دیگر غیر عرب ممالک میں قرآن کا عربی زبان میں ہونا ایک دقت پیش کر سکتا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی اس دقت کا ذکر نہیں کر رہے۔ یہ وقت قرآن کے ساتھ مخصوص نہیں۔ ہر کتاب کسی نہ کسی زبان میںہوگی اور اس کتاب کو سمجھنے کے لئے اس کی زبان کا جاننا ضروری ہوگا۔ خود عربوں کے لئے بھی قرآن پڑھنے کے لئے عربی زبان کا سیکھنا ضروری ہے۔ لیکن بہرحال عربی زبان سیکھنے کے لئے کسی الہامی ذریعہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مرزاقادیانی کی مراد قرآن کے اندرونی اور مخفی معانی سے ہے۔ جن تک پہنچنا با وجود عربی زبان پر پورا عبور حاصل ہونے کے ممکن نہیں۔ سوائے اس کے کہ قوم میں ایک ایسا آدمی موجود ہو جو الہام کے ذریعہ پاک کیا گیا ہو۔ الہام کے ذریعہ پاک کئے جانے کے الفاظ اس باب میں کئی بار استعمال ہوچکے ہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے آچکا ہے۔ ہم ان کا کوئی واضح مفہوم نہیں سمجھ سکے۔ الہام سے تو صرف کوئی بات بتائی جاسکتی ہے۔ پاک تو انسان پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اعمال سے ہی ہوگا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ مرزاقادیانی نے کہیں یہ ظاہر نہیں کیا کہ اس ایک برگزیدہ ہستی سے قوم کے دیگر افراد کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ آیا وہ بھی اس کے فیض سے قرآنی معارف کو سمجھ لیںگے یا پھر وہ اس کی صحبت کی وجہ سے ان معارف سے بے نیاز ہو جائیںگے؟
فہم قرآن کی نسبت بحث کا قطعی فیصلہ ایک آسان تجربے سے ہو سکتا ہے اور ہمارے خیال میں درست نتیجے تک پہنچنے کا واحد ذریعہ یہ تجربہ ہی ہے۔ جن قارئین کو اس بارے میں شک ہو وہ بجائے طویل خیالی بحث میں پڑنے کے خود قرآن کو پڑھ کر دیکھ لیں۔ انہیںمعلوم ہو جائے گا کہ یہ صاف سیدھی اور دل نشین عبارت ہے۔ اس کے سمجھنے کے لئے کسی خارجی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی مقام پر کچھ ابہام ہے تو دوسری جگہ خود قرآن ہی نے اس کی تشریح کر دی ہے۔
گو بہترین صورت یہ ہے کہ عربی زبان سیکھ کر قرآن کو اسی زبان میں پڑھا اور سمجھا جائے۔ لیکن اس تجربہ کے لئے عربی زبان کا جاننا ضروری نہیں۔ قرآن دنیا کی کئی زبانوں میں