اس جگہ ایک امر کے بارے میں تصریح کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات کہ قرآن میں رموز ومعارف ہیں۔ اس سے یہاں انکار نہیں کیا جارہا۔ لیکن وہ ایسے معارف نہیں ہوسکتے کہ انسان کی سمجھ سے ہی بالا ہوں۔ ان معارف کو سمجھنے کے لئے عقل، علم، کوشش اور غوروفکر کی ضرورت ہے نہ کہ کسی خاص روحانی درجے کی۔
آیت ’’لا یمسہ الا المطہرون‘‘ کے کوئی معنی ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر اس سے یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ اس میں قرآن کو چھونے کے لئے جسمانی پاکیزگی کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں یہ امر واقعہ بیان کیاگیا ہے کہ پاکیزہ خیال لوگوں کے سوائے دوسروں کو قرآنی تعلیم سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لیکن مرزاقادیانی کا بیان کیا ہوا۔ مفہوم اس سے بالکل الگ ہے۔ ان کے نزدیک قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک ہونا نہیں بلکہ پاک کیا جانا ضروری ہے۔ ان کے مسلک کے مطابق جسمانی طہورت تو خیر ایک عامیانہ خیال ہے۔ اپنی سعی سے روحانی تزکیۂ نفس بھی فہم قرآن کی بحث سے غیر متعلق ہے۔ قرآن سمجھنے کے لئے الہامی کلام کے ذریعہ پاک کیا جانا اور نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہونا ضروری ہے۔
اس بات کا کوئی واضح تصور قائم نہیں ہوسکتا کہ الہامی کلام سے پاک کئے جانے سے مرزاقادیانی کی کیا مراد تھی۔ غالباً ان کا مدعا صرف یہ کہنے سے ہے کہ قرآن کا مفہوم کما حقہ سمجھنے کے لئے صاحب الہام ہونا ضروری ہے۔ پاک کئے جانے کے الفاظ محض آیت ’’لا یمسہ الا المطہرون‘‘ سے سند حاصل کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیںَ
بہرحال اگر مرزاقادیانی کا خیال درست مانا جائے تو سوائے ان چند خوش نصیب اور برگزیدہ انسانوں کے جن کو نبیوں کی طرح مکالمہ ومخاطبہ کا مقام حاصل ہے۔ دیگر تمام بنی نوع انسان قرآنی ہدایت سے محروم رہے گی اور پھر جو نبیوں کی طرح خود صاحب الہام ہیں۔ ان کو شاید کسی دوسرے ذریعۂ ہدایت کی احتیاج ہی کہاں ہوگی۔ گویا ہدایت سے سب سے زیادہ محروم وہی طبقہ رہے گا جو اس کا سب سے زیادہ محتاج اور مستحق ہے۔ ایک عالمگیر مذہب کے مآخذ کی نسبت اس طرح کا تصور کیوںکر درست ہوسکتا ہے؟
یہ اتفاق کی بات نہیں کہ قرآنی وحی کا حامل نبی امی تھا اور اس کے اوّلین مخاطب بھی ناخواندہ لوگ تھے۔ کیا اس دور میں بارہا ایسا نہیں ہوا کہ ایک شخص نے محض قرآن سن کر کفر چھوڑ دیا اور اسلام میں داخل ہوگیا؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ قرآن کو سمجھے بغیر ہی اس سے ہدایت پارہے اور اس کی تعلیم پر عمل کر رہے تھے؟ پھر کیا قرآن سمجھنے کے قابل ہونے کے لئے انہیں کسی الہام کے