کی کسی بھی آیت کی مانند اور ہم پلہ کوئی عبارت اپنی طرف سے پیش کرنے سے قاصر رہیںگے۔ لیکن کیا قرآن کے اعجاز کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو سمجھنے اور اس کا اثر قبول کرنے کے لئے ہر وقت ایک ایسے وجود کا ہونا لازمی قرار دیا جائے جو بذریعہ الہامی کلام کے پاک کیا گیا ہو؟ کیا کلام کی عظمت اس میں ہے کہ اس کا مطلب کوئی نہ سمجھ سکے۔ یا اس میں کہ اس کو پڑھنے یا سننے کے ساتھ ہی اس کے معنی دل ودماغ کی گہرائیوں تک پہنچ جائیں؟
زبان خیال کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ کلام کا مقصد ہی کسی خیال کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک پہنچانا ہے۔ انسان بعض دفعہ اپنے عجز بیان کی وجہ سے اپنا مطلب کما حقہ دوسروں تک نہیں پہنچا سکتا اور بعض دفعہ زبان جان بوجھ کر اظہار خیال کی بجائے اخفاء حقیقت کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن قرآن خدا کا کلام ہے۔ خدا کو بیان پر پوری قدرت حاصل ہے۔ اس کا مقصد انسانوں کی ہدایت ہے۔ پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ قرآن کی زبان ایسی ہو کہ سوائے معدودے چند خواص کے اور کوئی اس کے معنی ہی نہ سمجھ سکے۔ اس سے تو وحی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام جہانوں کے لئے ذکر اور نصیحت ہے۔ خدا سے زیادہ کون اس بات سے آگاہ ہے کہ دنیا کی بہت بھاری اکثریت نہایت معمولی علمی استعداد رکھتی ہے۔ قرآن کو عالمین کے لئے ذکر مقرر کرنے کے لئے اس کی زبان بھی عالمین کی زبان ہونا چاہئے تھی۔ اس کے برعکس کوئی تخیل قائم کرنا قرآن کے اپنے دعویٰ اور مقصد کے منافی ہے۔
قرآن کی نسبت دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ یہ ضابطۂ حیات ہے۔ نیکی اور بدی میں امتیاز کرنے کے قواعد اس میں بیان کئے گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ضابطہ اور قواعد اور ان کی صحت کی نسبت دلائل اسی شخص پر حجت ہو سکتے ہیں جو کم ازکم ان کے معانی سمجھ سکے۔ اس صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ قرآن کو سمجھنے کی استعداد بہت کم لوگوں میں ہے تو قرآنی قانون اور احکام کی پابندی کا دائرہ بھی بالکل محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ دنیا میں انسانوں نے خود جو قوانین وضع کئے ہیں۔ ان کی پابندی بھی اس قیاس پر مبنی ہے کہ قانون ہر کوئی سمجھتا ہے یا سمجھ سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی صورتوں میں یہ قیاس حقیقت سے عاری ہوتا ہے اور وہ لوگ بھی قانون میں ماخوذ ہو جاتے ہیں۔ جو اس کو نہیں سمجھتے اور شاید سمجھ سکتے بھی نہیں۔ لیکن اس صورتحال سے خدائی قانون کی نسبت کوئی استدلال قائم نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن میں نیکی اور بدی کی نسبت صرف بنیادی حقیقتیں بیان کی گئی ہیں اور ان حقیقتوں کی بناء پر چند اہم اور غیر مبدل احکام مقرر کئے گئے ہیں۔ جو انسان کی فطرت سلیم کے عین مطا بق ہیں اور ان کا بیان کردینا ہی ان کو سمجھ لینا ہے۔