ضروریات کے لئے قرآن مکتفل ہے۔ احادیث کی نسبت یہ علماء قرآن کے مثلہ ومعہ کا عقیدہ قائم کئے ہوئے تھے۔ یہ بھی مانتے تھے کہ ہر صدی کے سرے پر ایک مجدد کا مبعوث کیا جانا ضروری ہے۔ محدثین کے مقلد تھے اور مفسرین کی رائے کا بھی اپنے آپ کو پابند سمجھتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اگر ہدایت کے لئے قرآن کو کافی قرار دیا جائے تو خود علماء کا وجود بہ حیثیت ایک الگ جماعت کے غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں مرزاقادیانی کے دعویٰ پر مذکورہ بالا اعتراض صرف چند روشن خیال مسلمانوں ہی نے کیا۔ اکثر ان میں سے غیر معروف تھے اور بعض علماء کے نزدیک اپنے الحاد کے لئے مشہور۔
اس اعتراض کا جواب مرزاقادیانی نے اپنی اکثر کتب میں دیا ہے۔ نمونہ کے طور پر کتاب (نزول المسیح ص۹۳، خزائن ج۱۸ ص۴۷۱) کا ایک حوالہ ملاحظہ ہو۔ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ ’’قرآن شریف خدا کا کلام تو ہے۔ بلکہ سب سے بڑا کلام مگر وہ تم سے بہت دور ہے۔ تمہاری آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتیں۔ اب وہ تمہارے ہاتھ میں ایسا ہے جیسا کہ توریت یہودیوں کے ہاتھ میں۔ اس وجہ سے اگر تم انصاف کرو تو گواہی دے سکتے ہو کہ بباعث اس کے کہ اس پاک کلام کے یقینی انوار تمہاری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ تم اس سے باطنی تقدس کا کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
آگے چل کر اسی کتاب میں (نزول المسیح ص۱۰۸،۱۱۲، خزائن ج۱۸ ص۴۸۶،۴۹۰) اس مؤقف کی مزید تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ ’’قرآن شریف اگرچہ عظیم الشان معجزہ ہے۔ مگر ایک کامل کے وجود کو چاہتا ہے کہ جو قرآن کے اعجازی جواہر پر مطلع ہو اور وہ اس تلوار کی طرح ہے۔ جو درحقیقت بے نظیر ہے۔ لیکن اپنا جوہر دکھلانے میں ایک خاص دست وبازو کی محتاج ہے۔ اسی پر دلیل شاہد یہ آیت ہے کہ: ’’لا یمسہ الا المطہرون‘‘ پس وہ ناپاکوں کے دلوں پر معجزہ کے طور پر اثر نہیں کر سکتا۔ بجز اس کے کہ اس کا اثر دکھلانے والا بھی قوم میں ایک موجود ہے اور وہ وہی ہوگا۔ جس کو یقنی طور پر نبیوں کی طرح خداتعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہوگا……
…… ہاں قرآن شریف معجزہ ہے۔ مگر وہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک ایسا شخص ہو کہ جو اس معجزہ کے جوہر ظاہر کرے اور وہ وہی ہوگا جو بذریعہ الہامی کلام کے پاک کیا جائے گا۔‘‘
جہاں تک راقم کو معلوم ہے۔ قرآن نے اپنے من جانب اﷲ ہونے کے لئے یہ امر تو بطور ایک دلیل پیش کیا ہے کہ اگر سب انسان بھی کوشش کریں تو کل قرآن تو رہا ایک طرف۔ اس