یا مہدی پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر حدیثوں میں بیان کی ہوئی خبر صحیح ہے تو پھر آپ کو ان آثار کا انتظار کرنا چاہئے۔ جو نزول مسیح کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں اور اس صورت میں آپ ہمیشہ انتظار کرتے رہیںگے۔
ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ آپ ضرور نزول مسیح کی احادیث سے انکار کریں۔ البتہ ہمیں اس پر ضرور اصرار ہے کہ آپ عقل اور منطق کے مطابق ایک دو ٹوک فیصلہ کریں۔ احادیث کا صحیح یا موضوع ہونا بعض شہادتی امور کے قابل اعتبار ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی حدیث شہادت کی میزان پر پوری اترتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ اس میں دی ہوئی خبر وہی قول ہے۔ جو رسول کریمﷺ نے بیان کیا اور صحابہؓ اور تابعین اور محدثین کے ذریعہ ہم تک پہنچ گیا۔ اس صورت میں اس پر بلاچون وچرا اور من وعن ایمان لانا چاہئے۔ اس کے برعکس اور روایت اور درایت کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ثابت نہ ہو کہ یہ روایت صحیح ہے تو اس صورت میں اس کا کوئی حصہ بھی قابل قبول نہ ہوگا۔ کیا یہ انتہائی ظلم نہیں ہوگا کہ احادیث کو تو ردکر دیا جائے۔ لیکن ان میں بیان کئے ہوئے بعض الفاظ کو اپنے سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے ایک عجیب وغریب دعویٰ کی دلیل ٹھہرا لیا جائے۔ بعینہ یہی عمل مرزاغلام احمد قادیانی نے احادیث کے ساتھ کیا ہے۔ انہوں نے ایک طرف تو ان احادیث کو رطب ویا بس کا مجموعہ قرار دیا ہے اور دوسری طرف اس مجموعے میں سے مفرد الفاظ لے کر ان کو اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش کیا ہے۔
کیا آپ کسی جج کے لئے یہ بات حق بجانب قرار دیںگے کہ وہ گواہ کی شہادت کو تو رد کردے۔ لیکن اس کے بیان سے کچھ الفاظ لے کر ان سے از خود ایک کہانی مرتب کر لے اور پھر اس کہانی کے مطابق مقدمے کا فیصلہ کر دے اور مرزاقادیانی نے تو اس سے زیادہ غضب کی بات یہ کی ہے کہ جن چند الفاظ پر ان کی نظر انتخاب پڑی ہے۔ ان کو بھی انہوں نے اپنے حال پر نہیں چھوڑا۔ ان الفاظ کی جو تاویل مرزاقادیانی کی ہے۔ اس کی چند مثالیں اس کتاب کے ایک دوسرے باب میں بیان کی گئی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ مرزاقادیانی کا مسلک یہ تھا کہ ’’جز نام نہیں ہستی اشیاء میرے آگے۔‘‘
مرزاقادیانی نے حدیث میں سے دجال، مسیح، دمشق، مینارۂ بیضا وغیرہ چند الفاظ لئے ہیں اور ان کو کھینچ تاک کر جو معنی اپنے حالات کے مناسب معلوم ہوئے ہیں۔ کر دئیے ہیں اور احادیث کے اصل مضمون کو رد کر دیا ہے۔ مرزاقادیانی کے لئے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے یہ رویہ ضروری تھا۔ لیکن ہمارا سوال جماعت احمدیہ کے نوجوانوں سے ہے۔ وہ کیوں خالی