ترقی یافتہ ممالک میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء ہیں۔ اگر ان کے حالات آج سے سو برس پہلے بیان کئے جاتے تو کسی کے لئے ان کا سمجھنا ممکن نہ تھا۔ یہی حال خیالات کی دنیا کا ہے۔ فلسفہ کے جو نظریات اب زیر بحث ہیں۔ آج سے چند سو سال پہلے ان کا ادراک مشکل تھا۔ اس لئے قیامت کی نسبت قرآنی بیان سے زیادہ تفصیل ممکن ہی نہ تھی اور ہمارے نزدیک یہ حالات پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہونا مناسب بھی نہ تھا۔ آخری منزل کے بارے میں ابہام اور حجاب انسان کی متجسس فطرت کے لئے ترقی کے محرک ہیں۔ لیکن قیامت کے حالات کو ایک واضح اور ہر لحاظ سے مکمل تصور کی صورت میں اپنے ذہن میں نہ لاسکنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم سرے سے اس کی نسبت کوئی تخیل ہی قائم نہیں کر سکتے۔ ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ آخری منزل حصول مقصد تخلیق اور تکمیل شرف انسانیت کی منزل ہوگی۔ نظریہ ارتقاء کا تقاضا ہے کہ انجام، انحطاط، پراگندگی اور شکست کی صورت میں ظاہر نہیں ہوگا۔
جو حالات آخری زمانہ کی نسبت احادیث میں درج ہیں۔ وہ اس کتاب کے پہلے باب میں لکھ دئے گئے ہیں۔ امید ہے آپ نے وہ حالات پڑھ لئے ہوںگے۔ کیا وہ حالات انسان کے کسی شاندار مستقبل کا نقشہ پیش کرتے ہیں؟ وہ تو ایک طرح کا Anti Climax ہیں۔ جس طرح ایک سنجیدہ اور پر شکوہ ڈرامہ یک لخت اور غیر متوقع طور سے ایک Farceکی صورت میں اختتام پذیر ہو جائے۔
جس آدم خاکی کے عروج سے انجم سہم رہے ہیں۔ کیا اس کا انجام اس طرح ہونا ہے کہ تمام بنی نوع انسان اس حد تک ذہنی افلاس میں مبتلا ہو جائے کہ ایک عجیب الخلقت دجال کو اس سے زیادہ عجیب الخلقت گدھے پر سوار دیکھے اور اس کی خدائی پر ایمان لے آئے۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرشتوں کے سہارے آسمان سے اتر کر مینارۂ دمشق پر نازل ہوں اور دجال سے جنگ کر کے اسے قتل کریں اور اس طرح لوگ دجال کے شر سے محفوظ ہوں اور پھر اس کے ساتھ ہی قیامت قائم ہو جائے۔
قرآن کی رو سے تخلیق آدم کا مقصد زمین پر خدا کی خلافت کا قیام تھا۔ فرشتوں نے شروع سے ہی آدم کی صلاحیتوں کو نہایت درجہ شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھا اور خدشہ ظاہر کیا کہ یہ مخلوق خواہ مخواہ خون خرابہ کرے گی اور فساد پید کرنے کا موجب ہوگی۔ اس کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کا اعلان تھا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ آدم کی انتہائی ترقی اور انجام کے جو حالات