عقیدہ ہمارا دین اور ایمان نہیں بن جاتا۔
اب اس آیت کی روشنی میں اس مسیح کے کارناموں کو پرکھئے۔ جس کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ حیرت ہے کہ مسیح کی طرف سے کسی دلیل یا حجت کے پیش کئے جانے کا ذکر نہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اس زمانے میں اسلام کی نسبت لوگوں کے اعتقادات کو کن شکوک وشبہات نے متزلزل کردیا ہوگا اور حضرت مسیح علیہ السلام کس طرح ان کو دور کریںگے۔ اس کے برعکس صرف یہ وعدہ ہے کہ جس کافر تک اس کے سانس کی ہوا پہنچے گی وہ مر جائے گا اور اس کی سانس حد نظر تک جائے گی۔ گویا مسیح کا کام کفار کو قائل کرنا نہ ہوگا۔ بلکہ ان کو موت کا پیغام دینا ہوگا۔ یہ امر بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ اس مشن کے لئے انبیاء میں سے بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو منتخب کیاگیا ہے۔ جن کی زندگی بیماروں کو تندرست کرنے اور مردوں کو زندہ کرنے میں گذری۔ بہرحال یہ پیش گوئی اس نبی کی نہیں ہوسکتی۔ جس پر قرآن نازل ہوا۔ کیونکہ اس کتاب میں واضح حکم موجود ہے کہ دین کے معاملہ میں ہر شخص کو مکمل آزادی ہے۔ کسی طرح کا جبرو اکراہ نہیں اور نبی کا مشن لوگوں تک ہدایت کا پہنچانا ہے اور بس۔ اس ہدایت پر زبردستی عمل کرانا نبی کے فرائض میں شامل نہیں۔ ’’لست علیہم بمصیطر‘‘
نزول مسیح کے احوال وآثار قیامت کا حصہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا قرآنی تعلیم کی روشنی میں قیامت کا وہ تصور درست ہے جوان احادیث میں پیش کیا گیا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ قرآن زندگی کا ایک ارتقائی تصور پیش کرتا ہے اور جب ہم اس عالم کی معلوم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں قضا وقدر ایک مسلسل روبہ ارتقائ، تخلیقی عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ انسان کی پیدائش اس عمل کی ایک اہم ترین کڑی ہے۔ یہاں سے ارتقاء کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس سفر کی آخری منزل اور نقطۂ کمال کی صورت کیا ہوگی؟ مصنف جیسا عامی انسان تو اس کا کیا جواب دے گا۔ بڑے بڑے فلاسفر اور مفکر اس کا کوئی واضح تصور پیش نہیں کر سکے۔
قرآن میں اس دور کے بیان میں نہایت درجہ کا اجمال پایا جاتا ہے۔ ایسا کرنا ناگزیر بھی تھا اور مبنی برحکمت بھی۔ ناگزیر اس لئے کہ انسان کے لئے نامعلوم حالات کے ادراک کی استعداد غیر محدود نہیں ہے۔ ہم ان حالات کا ایک دھندلا سا خاکہ بھی موجود اور محسوس اشیاء کی معیار کو سامنے رکھ کر ہی ذہن میں لاسکتے ہیں۔ جس حد پر پہنچ کر یہ معیار ہمارا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اس سے آگے ہمارے لئے کسی چیز کا تصور قائم کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ارتقاء کی آخری منزل تو خیر دور کی بات ہے۔ اس امر سے قیاس کر لیجئے کہ بے تار برقی اور ٹیلی ویژن وغیرہ ایجادات جو ترقی