بالقوۃ ہے اور دوسرا بالفعل۔ یہ مسلمہ اصول ہے (یا ہونا چاہئے) کہ جو احادیث صریح قرآنی آیات کے خلاف ہیں۔ ان کے موضوع ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ ہمارے نزدیک نزول مسیح کی نسبت احادیث کو رد کرنے کے لئے قرآن کی آیت ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ ہی کافی ہے۔ تاہم اس سلسلہ میں دو اور آیات کا ذکر مناسب ہوگا اور وہ یہ ہیں۔
۱… ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘
۲… ’’لا اکراہ فی الدین۰ قد تبین الرشد من الغی‘‘
پہلی آیت سے واضح ہے کہ قرآن کے ذریعہ دین کی تکمیل ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک وحی کے ذریعہ نسل انسانی کی ہدایت مطلوب تھی وہ مکمل ہو گئی۔ اس کے بعد جو ضروریات پیش آئیں گی۔ ان کے لئے انسان کو اسی ہدایت کی روشنی اور اپنے تدبر پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ جدید آسمانی ہدایت کی ضرورت دو ہی صورتوں میں ہوسکتی ہے۔ ایک یہ کہ قرآنی تعلیم پرانی ہوگئی ہے اور وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی۔ لیکن خوش قسمتی سے مسلمانوں کا کوئی فرقہ اس مفروضہ پر ایمان نہیں رکھتا۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ قرآن تو مکمل اور جامع ہے اور ہر قسم کے حالات کے لئے کافی ہے۔ لیکن اس کو سمجھنا مشکل ہے اور سمجھانے کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے۔ اوّل تو یہ خیال تکمیل دین کے منافی ہے۔ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ دین کی تکمیل قرآن کے ذریعہ نہیںہوئی۔ بلکہ نزول مسیح کے وقت ان کی وحی کے ذریعہ ہوگی۔ دوسرے احادیث کے مطابق مسیح موعود کے کاموں میں دجال سے لڑائی کرنا اور ہرطرح کا جنگ وجدل تو شامل ہیں۔ لیکن قرآنی اسرار ورموز کھولنا اور قرآنی تعلیم سے دنیا کی روحانی، سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مشکلات کا حل نکالنے کا کوئی ذکر نہیں۔
دوسری آیت کا آخری حصہ تکمیل دین کے نظریے کی تائید اور تشریح کرتا ہے۔ نیکی اور بدی میں بینّ فرق بیان کر دیا گیا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رشد اور گمراہی میں امتیاز نہیں ہوسکتا۔ اب یہ ہر شخص کا اپنا اختیار ہے کہ ہدایت کا راستہ اختیار کرتا ہے یا گمراہی کا۔ اسی انتخاب کا نام دین اختیار کرنا ہے اور خداتعالیٰ نے اعلان کر دیا ہے کہ دین کے اختیار کرنے میں کسی طرح کا اکراہ جائز نہیں ہے۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ دین کے معاملے میں جبرو اکراہ ممکن نہیں۔ اگر ہم کسی خارجی مجبوری کے اثر کے تحت کسی عقیدہ کا اقرار کرتے ہیں تو اس اقرار سے فی الواقعہ وہ