ثانیہ اس ہستی کی مساعی سے ظہور میں آئے گی۔ مسیح کے ظہور کے بعد دنیا کے دیگر تمام امور ثانوی حیثیت اختیار کر لیںگے۔ حالیہ واقعات سے متاثر ہوکر جماعت احمدیہ میں مرزاغلام احمد قادیانی کی حیثیت کو بہت حد تک معتدل اور غیر اہم صورت میں پیش کرنے کا رجحان ترقی پر ہے اور یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے لئے مرزاقادیانی پر ایمان لانا کوئی ایسا ضروری نہیں ہے۔ اگر یہ نظریہ دوسروں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کے لئے وضع نہیں کیاگیا تو ہم اس کو خود فریبی کی ایک نادر مثال قرار دیںگے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس مسیح کے ہاتھوں اس دجال کا قتل ہونا ہے۔ جس کے فتنہ سے حدیث کے الفاظ کے مطابق نوح علیہ السلام کے وقت سے اب تک تمام انبیاء نے اپنی امتوں کو ڈرایا ہے اور جس مسیح کی قیادت میں کفر کے خلاف اسلام کی آخری جنگ لڑی جانی ہے۔ اس پر ایمان لانا مسلمانوں کے لئے ضروری نہ ہو۔ اگر احادیث میں بیان کی ہوئی خبر درست ہےتو ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے نزول کے بعد دنیا میں صرف دو جماعتیں رہ جائیں گی۔ کفار اور منافقین دجال کے پیرو ہوںگے اور مؤمنوں کی جماعت مسیح کا ساتھ دے گی۔ اس وقت کسی کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ مسیح موعود کا انکار کرے اور پھر بھی مسلمان ہونے کا دعویدار ہو۔ اتنے اہم واقعہ کی نسبت قرآن میں ذکر نہ ہونا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ مسیح کے دوبارہ نازل ہونے کا عقیدہ بے بنیاد اور باطل ہے۔
لیکن فی الواقعہ قرآن اس عقیدہ کی نسبت خاموش نہیں ہیں۔ قرآن کی متعدد آیات ایسی ہیں۔ جن کی رو سے نزول مسیح کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو ’’خاتم النبیین‘‘ والی آیت ہی کو لیجئے۔ ہمیں اس امر نے ہمیشہ حیران کیاہے کہ جس ختم نبوت کے عقیدہ سے انکار کی بناء پر علمائے جماعت احمدیہ کو اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ اس کی روشنی میں یہ علماء اپنی پوزیشن پر کیوں غور نہیں کرتے؟ اگر ختم نبوت سے یہ مراد ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا (اور ہمارے نزدیک یہی مراد ہے) تو جماعت احمدیہ اور غیر احمدی علماء جو نزول مسیح پر ایمان رکھتے ہیں۔ دونوںہی ختم نبوت کے منکر ہیں۔ مسیح ابن مریم کے نبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور اگر ان کو رسول کریم کے بعد آنا ہے تو نبی کریم خاتم النبیین نہیں ہوسکتے۔ احمدیوں کے نزدیک مسیح ابن مریم کو نہیں آنا بلکہ ان کے مثیل کو آنا تھا۔ جو مرزاقادیانی کی ذات میں آگیا۔ ساتھ ہی ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مثیل بھی نبی ہے۔ بلکہ اپنی شان میں مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے۔ اس طرح بنیادی لحاظ سے ان دو فریقوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ ایک فریق ایک نبی کے آنے کا منتظر ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ یہ نبی آچکا ہے۔ ایک منکر ختم نبوت