کے ارکان کا حصہ ہیں) لیکن ظاہر ہے کہ عقیدۂ ظہور مسیح یا اس کے متعلق کوئی قول کسی اسلامی عبادت کا حصہ نہیں ہے اور اگر اس امتیاز کو اٹھادیا جائے تو سنت اور حدیث میں وہ فرق کہاں باقی رہ جاتا ہے جو مرزاقادیانی نے اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہر حدیث کسی نہ کسی قول یا عقیدہ سے متعلق ہے اور اگر سنت کا معیار یہی ہے کہ یہ قول یا عقیدہ احادیث کے مدون ہونے سے اب تک مسلمانوں میں رائج ہے تو پھر ہر حدیث کو سنت کا مقام حاصل ہو جائے گا۔
نماز کے علاوہ دوسری عبادات کے سلسلے میں بھی احادیث کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی نسبت قرآن میں صرف یہ حکم ہے کہ زکوٰۃ دی جائے۔ لیکن یہ کس کس مال پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی شرح کیا ہو۔ ان تفاصیل کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ وراثت، نکاح، طلاق اور فقہ کے دیگر قواعد کا بھی قرآن میں پوری تفصیل کے ساتھ ذکر نہیں ہے۔ اس لئے ان سب امور میں ہمارے لئے احادیث پر انحصار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ دیا گیا ہے کہ ان امور کی تفاصیل قرآن میں اس لئے بیان نہیں کی گئیں کہ ان کی نسبت ہر دور کے مسلمانوں کو اپنے اجتہاد کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کی نسبت مال کی تخصیص اور شرح کا تعین وغیرہ۔ معاملات، حکومت کی ضروریات اور لوگوں کی مالی حالت کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کئے جائیںگے۔ ان قواعد کو ناقابل تبدل شکل دینا مناسب نہیں ہے اور اسی حکمت کے تحت یہ امور قرآن میں بیان نہیں ہوئے۔
ہمارے نزدیک یہ جواب درست ہے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ کے لئے اس جواب کے مالہ وماعلیہ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہمارے سامنے سوال یہ نہیں ہے کہ کیوں نزول مسیح کی نسبت عام تفاصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئیں۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیوں سرے سے اس مسئلہ کا قرآن میں ذکر ہی نہیں۔ فرض کیجئے نماز، زکوٰۃ اور حج کے متعلق قرآن میں کوئی حکم نہ ہوتا۔ تو کیا اس صورت میں یہ جائز تھا کہ حدیث کی بناء پر ان عبادات کو مذہب کا جزو قرار دیا جاتا۔ اسلام کے تمام ضروری عقائد (کم ازکم اجمالی اور اصولی رنگ میں) قرآن میں بیان ہوگئے ہیں اور اگر کوئی عقیدہ قرآن میں نہیں ہے تو وہ اسلام کا جزو بھی نہیں ہوسکتا۔
نزول مسیح اور اس سے متعلق آثار کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ خواہ دیگر کئی مسائل کو چھوڑ دیا جاتا۔ اس امر کا قرآن میں نہایت واضح الفاظ میں ذکر ہونا ضروری تھا۔ اس معاملے کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر مسیح کی آمد کا وعدہ سچا ہے تو اس کے نزول کے بعد دنیا کی آئندہ تاریخ کا دارومدار اس کی ذات کے ساتھ ہوگا۔ اس صورت میں اسلام کی نشاۃ