کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلادیا اور اپنے ہاتھ سے ہزارہا صحابہؓ کو اس فعل کا پابند کر کے سلسلۂ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جواب تک امت میں تعامل کے رنگ میں مشہود اور محسوس ہے۔ اسی کا نام سنت ہے۔ یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے ناآشنا تھے۔ کیونکہ سلسلۂ تعامل نے جو سنت کے ذریعہ سے ان میں پیدا ہوگیا تھا۔ تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلا دئیے تھے۔ اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان حدیثوں کادنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ حرج نہ تھا۔ کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے ان ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔‘‘
(ریویو بر مباحثہ چکڑالوی، بٹالوی ص۳تا۵، خزائن ج۱۹ ص۲۰۹تا۲۱۱)
اوپر لکھے ہوئے حوالوں میں مرزاقادیانی نے جو خیال پیش کیا ہے ہمیں اس سے کامل اتفاق ہے۔ لیکن خود مرزاقادیانی اس مسلک پر قائم نہیں رہے۔ اگر وہ نزول مسیح والی حدیثوں کو پرکھنے میں اپنے ہی قائم کئے ہوئے معیار کو استعمال کرتے تو انہیں ان روایات کو رد کرنے میں کوئی دقت نہ ہونی چاہئے تھی۔ لیکن اس صورت میں ان کے اپنے دعویٰ کی بھی گنجائش باقی نہ رہتی۔ اس لئے اپنے اصول کو مطلق نظر انداز کرتے ہوئے نزول مسیح کی روایات کی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں۔ ’’اگرچہ یہ تو سچ ہے کہ حدیثوں کا وہ حصہ جو تعامل قولی وفعلی کے سلسلہ سے باہر ہے اور قرآن سے تصدیق یافتہ نہیں ہے۔ یقین کامل کے مرتبہ پر مسلم نہیں ہوسکتا۔ لیکن دوسرا حصہ جو تعامل میں آگیا اور کروڑہا مخلوقات ابتداء سے اس پر اپنے عملی طریق سے محافظ اور قائم چلی آتی ہے۔ اس کو ظنی اور شکی کیوں کر کہا جائے۔ پھر جب ائمہ حدیث نے اس سلسلۂ تعامل کے ساتھ ایک اور سلسلہ قائم کیا اور امور تعاملی کا اسناد راست گو متدین راویوں کے ذریعہ سے آنحضرتﷺ تک پہنچا دیا تو پھر اس صورت پر جرح کرنا درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے۔ جن کو بصیرت ایمانی اور عقل انسانی کا کچھ بھی حصہ نہیں ملا۔‘‘
یہ حوالہ بھی (شہادت القرآن ص۸، خزائن ج۶ ص۳۰۴) سے ہے۔ یہاں مرزاقادیانی نے اپنے استدلال میں نہایت سادگی سے ’’قولی تعامل‘‘ کا عجیب وغریب خیال داخل کردیا ہے۔ یہ خیال بالکل بے معنی ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کے مقصد کے لئے ضروری تھا۔ معمولی تدبر سے معلوم ہوسکتا ہے کہ تعامل کا تعلق صرف فعل (ACTION) سے ہے۔ قول کے تعامل سے کیا مراد ہوسکتی ہے؟ (سوائے اس قول کے جو عمل کا حصہ بن جائے۔ مثلاً جس طرح بعض مسنون دعائیں نماز