کو کچھ نقصان نہ تھا۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۵،۶، خزائن ج۶ ص۳۰۱،۳۰۲)
مرزاقادیانی کی تصانیف میں ایک مختصر سا رسالہ بھی شامل ہے۔ جس میں انہوں نے حدیث کے مقام کی نسبت اپنے موقف پر کسی قدر تفصیل سے بحث کی ہے۔ یہ رسالہ مرزاقادیانی نے ۱۹۰۲ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے درمیان ایک مباحثہ پر ریویو کے طور پر لکھا ہے۔ مرزاقادیانی کے الفاظ ہیں۔ ’’مباحثہ مندرجہ عنوان کے پیش آنے کی وجہ یہ ہے کہ مولوی عبداﷲ صاحب احادیث نبویہ کو محض ردی کی طرح خیال کرتے ہیں اور ایسے الفاظ منہ پر لاتے ہیں۔ جن کا ذکر کرنا بھی سوء ادب میں داخل ہے اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے ان کے مقابل پر یہ حجت پیش کی تھی کہ اگر احادیث ایسی ہی ردی اور لغو اور ناقابل اعتبار ہیں تو اس سے اکثر حصے عبادات اور مسائل فقہ کے باطل ہو جائیںگے۔ کیونکہ احکام قرآنی کی تفاصیل کا پتہ حدیث کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے۔ ورنہ اگر صرف قرآن کو ہی کافی سمجھا جائے تو پھر محض قرآن کی رو سے اس پر کیا دلیل ہے کہ فریضہ صبح کی دو رکعت اور باقی تین نمازیں چار چار رکعت ہیں۔‘‘
(ریویو بر مباحثہ چکڑالوی وبٹالوی ص۱، خزائن ج۱۹ ص۲۰۶)
فریقین کے ان دو متضاد نظریات پر بحث کرتے ہوئے مرزاقادیانی نے یہ رائے پیش کی ہے کہ ان کے نزدیک دونوں نظریے غلط ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ ان ہر دو فریق میں سے ایک فریق نے افراط کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور دوسرے نے تفریط کی۔ چنانچہ دونوں فریقوں کے مسلک کے رد میں مرزاقادیانی نے اپنے دلائل پیش کئے ہیں۔ فریق اہل حدیث کے نمائندہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے خیال کی تردید کرتے ہوئے مرزاقادیانی نے حدیث اور سنت میں امتیاز کیا ہے اور لکھا ہے کہ قرآن کے بعد سنت کا مقام ہے۔ لیکن سنت اور حدیث باہم مترادف نہیں ہیں اور دونوں کا فرق ملحوظ رکھنا چاہئے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ’’قرآن کے بعد دوسری (چیز) سنت ہے اور اس جگہ ہم اہل حدیث کی اصطلاحات سے الگ ہوکر بات کرتے ہیں۔ یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے۔ جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے۔ بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز۔ سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرتﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ یا بہ تبدیلی الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اور سنت رسولﷺ کا فعل ہے۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتﷺ نے خداتعالیٰ کے اس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کردیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں