طریقہ اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ احادیث کو رد کردینے سے اسلام میں سے کچھ تھوڑا ہی حصہ باقی رہ جائے گا۔ وجہ یہ کہ ہمیں اپنے دین کی تمام تفصیلات احادیث نبویہ کے ذریعہ ملی ہیں۔
اور دوسری طرف جب ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ حدیث کی تفصیلات پر ایمان لائیے اور مسیح موعود ہونے کے دعویٰ سے دست بردار ہو جائے۔ کیونکہ احادیث کے مطابق وعدہ یہ ہے کہ مسیح آسمان سے اترے گا اور اس عقیدہ پر امت کا اجماع ہے تو اس کے جواب میں مرزاقادیانی بڑی آسانی کے ساتھ حدیث کی وقعت کو بالکل کم کر دیتے ہیں اور یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ احادیث میں مندرجہ روایات ایک ظنی معاملہ ہے۔ اس پر کیونکر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ شہادت القرآن کے متذکرہ بالا اقتباس سے دوچار صفحات بعد اسی کتاب میں مرزاقادیانی بالکل متضاد نظریہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز کے ارکان وغیرہ کے تعین کے لئے احادیث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ استدلال انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’محدثین نے دیکھا کہ کروڑہا آدمی مغرب کے فرض تین رکعت پڑھتے ہیں اور فجر کی دو اور مع ذالک ہر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھتے ہیں اور آمین بھی کہتے ہیں۔ گوبالجہر یا بالسر اور قعدہ آخیرہ میں التحیات پڑھتے ہیں اور ساتھ اس کے درود اور کئی دعائیں ملاتے ہیں اور دونوں طرف سلام دے کر نماز سے باہر ہوتے ہیں۔ سو اس طرز عبادت کو دیکھ کر محدثین کو یہ ذوق اور شوق پیدا ہوا کہ تحقیق کے طور پر اس وضع نماز کا سلسلہ آنحضرتﷺ تک پہنچادیں اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے اس کو ثابت کریں۔ کیا یہ سچ ہے کہ نماز کی بنیاد ڈالنے والے وہی محدث تھے اور پہلے اس سے دنیا میں نماز نہیں ہوتی تھی اور دنیا نماز سے بالکل بے خبر تھی اور کئی صدیوں کے بعد صرف ایک دو حدیثوں پر اعتبار کرنے سے نماز شروع کی گئی۔ پس میں زور سے کہتا ہوں کہ یہ ایک بڑا دھوکہ ہوگا۔ اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ صرف مدار ثبوت ان رکعت اور کیفیت نماز خوانی کا ان چند حدیثوں پر تھا۔ کیا اس تحقیق اور تفتیش سے پہلے لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے اور حدیثوں کی تحقیق اور راویوں کا پتہ ملنے کے بعد پھر نمازیں شروع کرائی گئی تھیں۔ بلکہ کروڑہا انسان اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور اگر فرض کے طور پر حدیثوں کے اسنادی سلسلے کا وجود بھی نہ ہوتا تاہم اس سلسلۂ تامل سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت تھا کہ نماز کے بارے میں اسلام کی مسلسل تعلیم وقتاً بعد وقت اور قرناً بعد قرن یہی چلی آتی ہے۔ جس تعامل کے سلسلے کو ہمارے نبیﷺ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا تھا۔ وہ ایسا کروڑہا انسانوں میں پھیل گیا تھا کہ اگر محدثین کا دنیا میں نام ونشان بھی نہ ہوتا تب بھی اس