شدہ حقیقت ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس کا مصداق یہی عاجز ہے۔
دوسری دو تنقیحات کتاب کے موجودہ باب سے متعلق نہیں ہیں۔ پہلے امر یعنی احادیث کی قطعیت پر بحث کرتے ہوئے مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’معترض صاحب نے کسی سے سن لیا ہے کہ احادیث احاد کے مرتبہ پر ہیں اور اس سے بلا توقف یہ نتیجہ پیدا کیا کہ بجز قرآن کریم کے جس قدر مسلمات اسلام ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد شکوک ہیں۔ جن کو یقین اور قطعیت میں سے کچھ حصہ نہیں۔ لیکن درحقیقت یہ ایک بڑا بھاری دھوکہ ہے۔ جس کا پہلا اثر دین اور ایمان کا تباہ ہونا ہے۔ کیونکہ اگر یہی بات سچ ہے تو پھر شاید اسلام میں سے کچھ تھوڑا ہی حصہ باقی رہ جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے دین کی تمام تفصیلات احادیث نبویہ کے ذریعہ سے ملی ہیں۔ مثلاً یہ نماز جو پنج وقت ہم پڑھتے ہیں۔ گو قرآن مجید سے اس کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ مگر یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی دو رکعت فرض اور دو رکعت سنت ہیں اور پھر ظہر کی چار رکعت فرض اور چار اور دو سنت اور مغرب کی تین رکعت فرض اور پھر عشاء کی چار۔ ایسا ہی زکوٰۃ کی تفاصیل معلوم کرنے کے لئے ہم بالکل احادیث کے محتاج ہیں۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۲،۳، خزائن ج۶ ص۲۹۸،۲۹۹)
احادیث کی ضرورت ثابت کرنے کے لئے نماز کی مثال اتنی عام ہے کہ احادیث کے حق میں لکھی ہوئی تقریباً ہر کتاب میں آپ کو ملے گی۔ اس سے یہ تاثر پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے کہ احادیث کے بغیر نماز کے اوقات، رکعتوں کی تعداد اور ارکان کی تفصیل کچھ بھی ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا۔ علماء یہ دلیل پیش کرنے میں کسی غلط فہمی میں نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ اصل صورتحال سے واقف ہیں۔ لیکن عوام کو اس کے ذریعہ آسانی سے غلط فہمی میں مبتلا کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احادیث کے جمع کرنے کو نماز کی تفصیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رسول کریمﷺ کے زمانے میں مسلمانوں نے ان سے نماز سیکھی۔ اس کے بعد جہاں جہاں مسلمان گئے نو مسلموں نے ان کے عمل کے مطابق نماز ادا کرنا شروع کر دیا۔ حدیث کے اوّلین مجموعوں کے مرتب ہونے تک مسلمانوں کی تعداد لاکھوں یا شاید کروڑوں تک پہنچ چکی تھی۔ عرب کے علاوہ کئی دیگر ممالک تک اسلام پھیل چکا تھا۔ اس وقت احادیث کی اور کوئی ضرورت ہو تو ہو کم ازکم نماز سکھانے کے لئے کسی حدیث کی ضرورت نہ تھی۔
اس بارے میں خود مرزاقادیانی اصل صورتحال سے ناواقف نہ تھے۔ لیکن ان کا طریق یہ ہے کہ ایک دلیل کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بھی اس کے اس حصے پر انحصار کرنے میں کچھ عیب نہیں سمجھتے۔ جس سے ان کے دعویٰ کی تائید ہوتی ہو۔ احادیث کی نسبت بھی مرزاقادیانی نے یہی