کہ قرآن میں اس سارے معاملے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ احمدیہ جماعت کو ہمارے اس بیان سے بھی اختلاف ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں آخری زمانہ میں فتنۂ دجال کی پیش گوئی کی گئی ہے اور یہ بھی پیش گوئی موجود ہے کہ اس فتنہ کے انسداد کے لئے مسیح موعود اور مہدی معہود کو مبعوث کیاجائے گا۔ جماعت احمدیہ کے علماء کے اس مؤقف پر ہم ایک الگ باب میں بحث کریںگے۔ فی الحال اس مفروضہ کو درست تسلیم کرتے ہوئے استدلال کیاجاتا ہے کہ فی الواقع ان امور کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ ویسے مسلم طور پر دجال اور مہدی کے تو الفاظ ہی قرآن میں موجود نہیں ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کا بھی ذکر نہیں ہے۔
یہ سوال مرزاغلام احمد قادیانی کے زمانے میں ہی اٹھایا گیا تھا کہ جب قرآن میں نزول مسیح کا کوئی ذکر نہیں ہے تو اس بارے میں احادیث پر کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے کتاب (شہادۃ القرآن ص۱، خزائن ج۶ ص۲۹۷) اسی طرح کے ایک اعتراض کے جواب میں لکھی ہے۔ اس کتاب کی ابتداء ان الفاظ سے کی گئی ہے: ’’ایک صاحب عطاء محمد نام اپنے خط مطبوعہ اگست ۱۸۹۳ء میں مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اس پر کیا دلیل ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا ہم کو انتظار کرنا لازم وواجب ہے۔‘‘
’’اس جگہ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ معترض صاحب کا یہ مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ درحقیقت فوت ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں بتصریح موجود ہے۔ لیکن وہ اس بات سے منکر ہیں کہ عیسیٰ کے نام پر کوئی اس امت میں آنے والا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ احادیث میں پیش گوئی موجود ہے۔ مگر احادیث کے بیان کردہ پایۂ اعتبار سے ساقط سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احادیث زمانۂ دراز کے بعد جمع کی گئی ہیں اور اکثر مجموعہ احاد ہیں اور مفید یقین نہیں ہیں۔ اس لئے وہ مسیح موعود کی خبر کو جو احادیث کی رو سے ثابت ہے حقیقت مثبتہ خیال نہیں کرتے۔‘‘
اس تمہید کے بعد مرزاقادیانی نے اس موضوع کو تین تنقیحات میں تقسیم کیا ہے اور ہر تنقیح پر الگ الگ بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’سوواضح ہو کہ اس مسئلہ میں دراصل تنقیح طلب تین امر ہیں۔‘‘
اوّل یہ کہ مسیح موعود کے آنے کی خبر جو حدیثوں میں پائی جاتی ہے۔ کیا اس وجہ سے ناقابل اعتبار ہے کہ حدیثوںکا بیان مرتبۂ یقین سے دور ومہجور ہے۔ دوسرے یہ کہ کیا قرآن کریم میں اس پیش گوئی کے بارے میں کچھ ذکر ہے یا نہیں۔ تیسرے یہ کہ اگر یہ پیش گوئی ایک ثابت