اس طرز تنقید میں دلچسپی بھی باقی نہ رہے گی۔
مثال کے لئے تنقید کے سمندر کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے گزرنے کی کوشش کیجئے۔ نزول مسیح کی نسبت بخاری کی ایک حدیث پر اپنی تنقید کا آغاز علامہ تمنا عمادی نے اس طرح کیا ہے۔ ’’بخاری کی پہلی حدیث حدثنا اسحق انا یعقوب بن ابراہیم کر کے شروع ہوتی ہے۔ یہ اسحاق کون ہیں؟ اﷲ ہی جانے۔ امام بخاری پندرہ اسحق سے روایت کرتے ہیں۔ شارحین کہتے ہیں کہ یہاں اسحق بن ابراہیم مراد ہیں تو امام بخاری سات اسحق بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں۔ اسحق بن ابراہیم بن یزید ابو النصر الفرادیسی، اسحق بن ابرہیم بن نصر البخاری ابو ابراہیم اسعدی، اسحق بن ابراہیم بن مخلد بن ابراہیم بن مطر المعروف بابن راہویہ، اسحق بن ابراہیم بن محم الصواف الباہلی ابو یعقوب البصری، اسحق بن ابراہیم بن العلا بن الضحاک ابو یعقوب المحمصی، اسحق بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن منیع البنعوی ابو یعقوب، اسحق بن ابراہیم ابی اسرائیل بن ابو یعقوب المروزی نزیل بغداد (روی عنہ البخاری فی الادب)‘‘
غرض اگر کہیں امام بخاری حدثنا اسحق بن ابراہیم بھی لکھیں جیسا کہ متعدد جگہ ہے تو قطعی طور سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کون اسحق بن ابراہیم ہیں۔ لیکن ابو علی الجبائی نے یہاں اسحق بن راہویہ یا اسحق بن منصور میں سے کسی کے ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ چونکہ یہاں صرف اسحاق ہے۔ بلا اظہار نسبت مگر ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں کہ یہاں اسحق بن راہویہ ہی مراد ہیں۔ کیونکہ ابن راہویہ کی عادت ہے کہ وہ حدثنا کبھی نہیں کہتے۔ جب کہتے ہیں اخبرنا ہی کہتے ہیں۔ (اور یہاں انا ہے جو اخبرنا کا مخفف ہے) اس لئے یقینا ابن راہویہ ہی یہاں مراد ہیں۔
میں نے صحیح بخاری پر ایک سرسری نظر دوڑائی تو ابن حجر کے اس استقراء کو غلط پایا۔ ابن راہویہ عام محدثین کی طرح صرف عن کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے بخاری جلد اوّل ص۱۸، باب فصل من علم وعلم میں امام بخاری لکھتے ہیں۔ حدثنا اسحق عن ابی اسامہ، حاشیہ بین السطور میں لکھا ہے کہ یہ ابن راہویہ ہیں اور حاشیہ پر جہاں قسطلانی وغیرہ سے اسماء الرجال کی تشریح ہے۔ اس میں لکھتے ہیں کہ جب اسحق بغیر کسی نسبت کے ہو تو صحیح بخاری میں ابن راہویہ ہی مراد ہوںگے۔ جیسا کہ جبائی نے (سعید) ابن امسکن کا قول نقل کیا ہے۔ لیکن یہ بھی اس سرسری مطالعے میں غلط ہی ٹھہرا۔
یہ تنقید کی صرف تمہید ہے۔ پوری تنقید (صرف ایک حدیث کی) رسالے کے ساٹھ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ نزول عیسیٰ اور ظہور مہدی کے عقیدہ کے خلاف سب سے اہم امر یہ ہے