دیجئے۔ جب علماء کو کوئی عدالتی کام پیش آتا ہے تو وہ اس کو جزاً وکلاً آپ لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ کو جو دین کا کام پیش آوے آپ اس کو جزاً وکلاً علماء کے سپرد کر دیجئے۔‘‘
یہ تو ہوا غیر علماء کا طبقہ۔ لیکن خود اس دور کے علماء بھی اپنے آپ کو حدیث کی جرح وتعدیل کا اہل قرار نہیں دیتے۔ بلکہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس بارے میں جو تحقیقات بھی ممکن تھی وہ آج سے کئی سو سال پہلے ہوچکی ہے اور احادیث کی صحت کے بارے میں ائمہ کی رائے حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر معتقدین حدیث اور منکرین حدیث میں اصل تنازعہ حدیث کی حجت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں نہیں۔ بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ منکرین حدیث یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ احادیث کو اب بھی درایت اور روایت کی میزان پر پرکھا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ حدیث کے منکر نہیں ہیں۔ صرف بخاری، مسلم، ترمذی وغیرہ کی رائے کی قطعیت کے منکر ہیں۔ اس لئے ان کو منکر حدیث کا نام دینا زیادتی ہے۔ فی الواقعہ یہی طبقہ حدیث کا معتقد ہے۔ پرانے مکتب خیال کے بزرگ حدیث کے معتقد نہیںہیں۔ بلکہ اپنے شیوخ کی رائے کے معتقد ہیں۔
یہ ایک وسیع بحث ہے اور ہم اس میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ دونوں جانب سے کثرت سے لٹریچر شائع ہوچکا ہے اور ہورہا ہے۔ ہمارے سامنے نسبتاً ایک محدود مسئلہ یعنی ظہور مہدی اور نزول مسیح ہے۔ اس لئے ہم احادیث کے صرف اس حصہ سے بحث کرنا چاہتے ہیں جس کا اس عقیدہ سے براہ راست تعلق ہے۔ اس محدود حصہ پر تنقید میں بھی ہم صرف درایت کے معیار سے استفادہ کرنے پر اکتفاء کریںگے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ احادیث کی صحت کے بارے میں ہم اسی اصول کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں۔ دوسرے روایت کے اصول اور ان کا اطلاق علم حدیث کا ایک نہایت درجہ دقیق اور پیچیدہ فنی شعبہ ہے۔ (مصنف کو اعتراف ہے کہ اسے اس میں کوئی قابل لحاظ استعداد حاصل نہیں ہے) خود علماء میں سے بھی چند ایک حدیث کے ماہرین ہی ایسے ہیں جو اسماء الرجال کے علم کو کما حقہ سمجھتے ہیں اور تنقید کا مرحلہ تو اس سے کہیں آگے ہے۔ اس تنقید کے اہل شاید گنتی کے چند اصحاب ہوںگے۔ کچھ عرصہ ہوا ’’طلوع اسلام‘‘ کے چند شماروں میں نزول مسیح کی احادیث پر ایک نہایت مبسوط اور عالمانہ تنقید شائع ہوئی تھی۔ جن قارئین کو موضوع کے اس پہلو سے دلچسپی ہو وہ ان مضامین سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس سے دو فائدے ہوںگے۔ ایک تو ان قارئین کو یقین ہو جائے گا کہ روایت کے مسلمہ اصول، تاریخی قرائن اور داخلی شہادت کی رو سے بھی یہ احادیث ساقط الاعتبار ہیں۔ دوسرے ان مضامین کو پڑھ لینے کے بعد غالباً اکثر قارئین کی