۲…
سنت متواترہ کے خلاف ہو۔
۳…
عقل سلیم کے خلاف ہو۔
۴…
شریعت کے قواعد کلیہ اور مسلمہ کے خلاف ہو۔
۵…
سلسلۂ سند میں کوئی ایک راوی بھی ایسا ہو جس کا ایک مرتبہ بھی مدت العمر میں جھوٹ ثابت ہوگیا۔ اس کی کوئی روایت بھی باجماع محدثین معتبر نہیں۔
۶…
جس زمانہ کا واقعہ بیان کرے وہ تاریخی شہادت کے صریح خلاف ہو۔
۷…
حدیث کے الفاظ یا معنی ایسے رکیک ہوں کہ قواعد عربیت کے مطابق نہ ہوں۔ یا شان نبوت ورسالت کے مناسب نہ ہوں۔
۸…
معمولی کام پر غیر معمولی ثواب اور اجر کا وعدہ ہو۔ یا معمولی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو۔
۹…
حدیث کسی ایسے محسوس اور مشاہد واقعہ کے بیان پر مشتمل ہو کہ اگر وہ وقوع میں آتا ہو تو ہزاروں اس کے روایت کرنے والے ہوتے۔ مگر بایں ہمہ سوائے اس ایک راوی کے اور کوئی روایت کرنے والا نہیں۔
یہ سب اصول بڑے اہم ہیں اور کسی روایت کی نسبت درست نتیجہ تک پہنچنے کے لئے بہت مفید ہو سکتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ علماء موجودہ دور کے کسی شخص کو ان اصولوں سے استفادہ کرنے کا مجاز نہیں سمجھتے۔ علماء کے محدود طبقے سے باہر تو کسی کا یہ حق ہی تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ دینی معاملات میں آزادانہ تحقیقات سے کوئی رائے قائم کرے۔ اس نقطۂ نگاہ کی وضاحت کے لئے نمونہ کے طور پر کتاب ’’اسلام اور عقلیات‘‘ مصنفہ مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ہم ان کو (یعنی غیر علماء کو) رائے دیتے ہیں کہ قاعدہ مسلمہ بین العقلاء ’’لکل فن رجال‘‘ پر عمل کریں اور جو کام ان کے کرنے کا نہیں ہے۔ اس میں دخل نہ دیا کریں۔ بلکہ اس فن کے جاننے والوں پر چھوڑ دیا کریں۔ اگر یہ عربی کا جملہ ان کی سمجھ میں نہ آوے تو اپنے تسلیم کردہ مسئلہ تقسیم عمل پر ہی عمل کر لیا کریں۔ کبھی ایک حاکم ادنیٰ مجسٹریٹ سے لے کر اعلیٰ جج اور لیفٹیننٹ گورنر اور وائسرائے تک ایک معمولی ڈاکٹر کے حکم میں دخل نہیں دیتا۔ دیکھا ہوگا کہ بعض دفعہ ڈاکٹر نے ذرا دیر میں بڑے سے بڑے مجسٹریٹ کو دماغ خراب ہو جانے کا حکم لگا کر نکلوادیا۔ تقسیم عمل کا مسئلہ آج کل بالکل مسلمہ مسئلہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس کو صرف دنیا تک محدود نہ کیجئے۔ دین میں بھی اس سے کام لیجئے اور دنیا کے کام آپ کیجئے اور دین کے کام علماء پر چھوڑ