آجانا اس بات کی قطعی دلیل نہیں ہے کہ یہ حقیقتاً خبر رسول ہے۔ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہر روایت کو عقلی اور نقلی لحاظ سے پرکھیں۔ یہ دیکھیں کہ یہ قرآنی احکام کے خلاف ہے یا موافق۔ تاریخی واقعات اور اسی مضمون کی دیگر روایات سے اس کا مقابلہ کریں اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ روایت الٰہی صفات اور رسول اکرمﷺ کے اس ارفع کردار کے مطابق ہے جو قرآن مجید نے پیش کیا ہے اور جس کو عقل سلیم مانتی ہے۔
یہ امتحان اس لئے نہیں ہیں کہ اگر رسول کا قول۔ ان پر پورا نہ اترے تو اس کو روک کر دیا جائے۔ بلکہ ان کے ذریعہ یہ دریافت کرنا ہوتا ہے کہ آیا جس قول کو رسول اکرمﷺ کا قول کہا جارہا ہے وہ حقیقت میں رسول کا قول ہے یا نہیں۔ اس دور میں احادیث کی نسبت اس طرح کی جرح وقدح کو روا رکھنے والا طبقہ مستقیم الرائے علماء کے نزدیک منکر حدیث کہلاتا ہے۔
کسی بھی موضوع پر بحث ہو۔ ایک عام اور سہل لیکن گمراہ کن حربہ یہ استعمال کیا جاتا ہے کہ فریق مخالف کی طرف وہ اعتقادات منسوب کئے جاتے ہیں۔ جو فی الواقع اس کے اعتقادات نہیں ہوتے۔ یا پھر ان اعتقادات کی ایک ناقابل شناخت حد تک مسخ شدہ صورت ہوتی ہے اور اس مفروضہ کی بنیاد پر فریق مخالف پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ طریق بحث جیتنے کے لئے مفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر بحث کا مقصد دیانت داری سے فریق مخالف کو قائل کرنا یا حقیقت پر پہنچنا ہو تو ظاہر ہے اس کا کچھ فائدہ نہیں۔
کوئی مسلمان حدیث کا منکر نہیں ہوسکتا۔ لیکن پہلے یہ تو ثابت ہونا چاہئے کہ جس قول کو رسول اکرمﷺ کی طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ وہ فی الواقع رسول کا قول ہے بھی۔ حدیث کے انتہائی فدائیوں کو بھی اس سے انکار نہیں کہ کسی روایت کی نسبت محض یہ دعویٰ کر دینا کافی نہیں کہ اس میں بیان کیا ہوا واقعہ رسول کریمﷺ کی طرف منسوب کیاگیا ہے۔ بلکہ اس کی صحت کی نسبت تحقیق ہوسکتی ہے۔ علماء نے اس تحقیق کے لئے روایت اور درایت کے کئی اصول بھی قائم کئے ہوئے ہیں۔ حدیث کی حمایت میں آج کل جو کتب لکھی جارہی ہیں۔ ان میں آپ کو ان اصولوں کا ذکر ملے گا۔ مثلاً مولانا محمد ادریس کاندھلوی شیخ التفسیر والحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور کی لکھی ہوئی ایک کتاب ’’حجیت حدیث‘‘ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اس میں مصنف نے ’’معیار برہانی‘‘ کے عنوان کے تحت پندرہ ایسے امور درج کئے ہیں۔ جن میں سے کسی کا حدیث میں پایا جانا اس کے موضوع ہونے کی علامت ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔
۱…
نص قرآنی کے خلاف ہو۔