مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیںگے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۴۹۱، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
یہ بحث کہ کیونکر بعد میں مرزاقادیانی نے اپنا عقیدہ تبدیل کر لیا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ خود مسیح موعود ہیں۔ ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں صرف اس امر کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ جن الہامات کے ذریعہ خود ملہم پر اپنے مسیح ہونے کا راز نہ کھل سکا۔ ان پر مولوی محمد حسین کیونکر اس بناء پر اعتراض کرتے کہ ان الہامات سے تو اس شخص کا مسیح ہونا ثابت ہوتا ہے؟
یہ امور مرزاقادیانی کے مخالف مولوی صاحبان کے نکتۂ نگاہ کے مطابق لکھے گئے ہیں۔ میرے اپنے عقائد مختلف ہیں۔ میں قرآن کے بعد کسی شکل میں الہام کا قائل نہیںہوں اور اپنی اس رائے کو عقیدہ ختم نبوت کا لازمی اور ناقابل استثناء منطقی نتیجہ سمجھتا ہوں۔ اس موضوع پر اس کتاب کے ایک علیحدہ باب میں مفصل بحث کی گئی ہے۔
تاویل کی ایک اور مثال پیش کر کے میں اس باب کو ختم کرتا ہوں۔ تحریر کے یہ چند نمونے مرزاقادیانی کا رجحان طبع اور طرز استدلال سامنے لانے کے لئے درج کئے گئے ہیں۔ اگر قارئین کو اس معاملہ میں زیادہ دلچسپی ہوتو مرزاقادیانی کی اصل کتب پڑھیں۔ ان میں جگہ جگہ بعید از قیاس تاویلات اور ناقابل فہم استدلال کے نمونے ملیںگے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی نے تہیہ کر لیا تھا کہ کسی بات کے سیدھے سادے معنی نہ کریںگے اور حتیٰ الوسع ہر مضمون سے کوئی نئی اور عجیب وغریب بات پیدا کرنے کی کوشش کریںگے۔ اس رویہ کے وہ اس قدر عادی ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے حق میں حقیر سے فائدہ کے لئے ہر طرح کی تحریف وتاویل کو جائز قرار دے لیا۔ اس قسم کے رجحان کا ایک نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کی مشق کے بعد انسان کو اس طرح کی نکتہ آفرینی میں لطف آنے لگتا ہے اور وہ اس سے الگ ہوکر سوچ ہی نہیں سکتا۔
کتاب اربعین جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے۔ مرزاقادیانی نے اس ارادہ کے ساتھ لکھنی شروع کی تھی کہ اس میں اپنی صداقت پر چالیس دلائل پیش کریںگے۔ شروع میں مرزاقادیانی کا خیال کتاب کو چالیس قسطوں میں شائع کرنے کا تھا۔ چنانچہ کتاب کے پہلے حصہ یعنی (اربعین نمبر۱ ص۱، خزائن ج۱۷ ص۳۴۳) کے شروع میں مرزاقادیانی نے کتاب کی نسبت یہ ہدایت لکھی۔
’’نصیحت: وہ تمام دوست جن کے پاس وقتاً فوقتاً یہ نمبر پہنچتے جائیں وہ ان کو جمع کرتے