آپ جانتے ہیں کہ اہل مکہ نے حضورﷺ پر اتنہائی مظالم توڑے تھے۔ آپؐ کے پیروؤں کو گرم ریت پر گھسیٹا تھا۔ آپؐ کو تین برس کے لئے پہاڑوں میں قید کر دیا تھا۔ آپؐ کو گھر بار سے نکال دیا تھا اور مدینہ پر کئی مرتبہ چڑھائی کی تھی۔ لیکن جب فتح مکہ کے بعد اہل مکہ کو سزا دینے کا وقت آیا تو آپؐ نے اعلان فرمایا: ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘ {جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا۔}
حضورﷺ کا یہی وہ خلق عظیم تھا۔ جس نے لاکھوں دلوں پر قبضہ کر لیا تھا اور صحابہؓ کی یہی وہ تلوار تھی جس نے چالیس ہزار بستیوں اور قلعوں کے ہمراہ چار کروڑ دلوں کو بھی فتح کر لیا تھا۔ صحابہؓ کو ہدایت تھی کہ جاؤ۔ اس قوم کے انبیاء وصحائف کی صداقت کا اعلان کرو۔ ان کے معابد کو مت چھیڑو۔ ان کے معبودوں کو برا نہ کہو۔ انہیں مکمل مذہبی ومجلسی آزادی دو۔ ان سے ایسا عادلانہ بلکہ محسنانہ سلوک کرو کہ وہ لوگ تمہیں رحمت مجسم سمجھنے لگیں۔
قرآن وحدیث میں از اوّل تا آخر کہیں کوئی بدکلامی یا وہ گوئی موجود نہیں۔ حضورﷺ نے زندگی بھر کسی فرد کی توہین وتحقیر نہیں کی۔ کسی کا مضحکہ نہیں اڑایا۔ کسی کو دجال یا سور نہیں کہا۔ اس میں کلام نہیں کہ قرآن عظیم نے بدکاروں کا فاسق وکافر قرار دیا تھا۔ لیکن یہ گالی نہیں تھی۔ بلکہ خالص حقیقت بیانی تھی۔ فاسق کے معنی ہیں۔ بدچلن اور کافر کے معنی ہیں۔ قانون شکن، اگر ایک شرابی، زانی، مفسد، چور، خائن اور منافق کو فاسق وکافر نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ گدھے کو گدھا کہنے سے اس کی توہین نہیں ہوتی۔ حضورﷺ کے اقوال میں نہ طعنے ہیں نہ گالیاں۔ نہ بازاری قسم کی تضحیک ہے اور نہ متبذل قسم کی پھبتیاں۔ از اوّل تا آخر ایک پر عظمت متانت اور روح افزاء سنجیدگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک اخلاقی معلم کا اپنا اخلاق قابل رشک نہ ہو۔ دنیا اس سے مستفیض نہیں ہوسکتی۔ درست فرمایا تھا۔ مرزاقادیانی نے۔ ’’اخلاقی معلم کا یہ فرض ہے کہ پہلے اپنے اخلاق کریمہ دکھلادے۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۱۱، خزائن ج۲۰ ص۳۴۶)
’’لعنت باقی صدیقوں کا کام نہیں۔ مؤمن لعان (لعنت بھیجنے والا) نہیں ہوتا۔‘‘
(ازالہ ص۶۶۰، خزائن ج۳ ص۴۵۶)
تحریر میں سخت گالیاں دینا… اور بد زبانی کرنا اور اپنے مخالفانہ جوش کو انتہاء تک پہنچانا کیا اس عادت کو خدا پسند کرتا ہے یا اس کو شیوۂ شرفا کہہ سکتے ہیں؟
(آسمانی فیصلہ ص۹، خزائن ج۴ ص۳۱۹)
’’میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۱۰، خزائن ج۴ ص۳۲۰)