النبیین کی تفسیر نبی ساز فرماتے ہیں۔ باقی ہر مقام پر اس لفظ کو آخری کے معنوں میں استعمال کیا۔ مثلاً: ’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں بارہ موسوی خلیفوں کا ذکر فرمایا۔ جن میں سے ہر ایک حضرت موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور تیرھواں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو موسیٰ کی قوم کا خاتم الانبیاء تھا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۳۷، خزائن ج۱۷ ص۱۲۳)
’’یہ ماننا ضروری ہے کہ وہ (مسیح موعود یعنی خود مرزاقادیانی) اس امت کا خاتم الاولیاء ہے۔ جیسا کہ سلسلہ موسویہ کے خلیفوں میں حضرت عیسیٰ خاتم الانبیاء ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۴۹، خزائن ج۱۷ ص۱۲۷)
’’مسیح موعود خاتم خلفائے محمدیہ ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۹۱، خزائن ج۱۷ ص۲۴۴)
’’ہمارے نبیؐ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ کوئی نیا نہ پرانا۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۷حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۷)
’’اﷲ نے حضرت مسیح کو امت موسویہ کا خاتم الانبیاء بنایا۔‘‘
(ترجمہ خطبۂ الہامیہ ص۴۳، خزائن ج۱۶ ص۷۹)
’’انا خاتم الاولیاء لاولی بعدی‘‘ میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں آئے گا۔ (خطبہ الہامیہ ص۳۵، خزائن ج۱۶ ص۷۰)
’’اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۰۱، خزائن ج۱۷ ص۲۰۹)
’’اور میں جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس (حضور علیہ السلام) پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔‘‘ (چشمۂ معرفت ص۳۲۴، خزائن ج۲۳ ص۳۴۰) کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مرزاقادیانی نے لفظ خاتم کو باقی ہر مقام پر آخری کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ لیکن جب خاتم النبیین کی تفسیر کرنے لگے تو فرمایا۔ ’’اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۶، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰)
اور اس سے عجیب تریہ ہے کہ جب اپنے آپ کو خاتم الخلفاء والانبیاء قرار دیتے ہیں تو لفظ خاتم کو پھر ’’آخری‘‘ کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ خطبۂ الہامیہ میں اپنی نبوت یہ بحث کرتے ہوئے حدیث کی اینٹ اور عمارت والی تمثیل کا ذکریوں فرماتے ہیں۔ ’’فارادﷲ ان