ہفتم… ’’یااباذر۰ اوّل الرسل آدم وآخرہم محمد (ترمذی، ابن عساکر، کنزالعمال ج۱ حدیث۳۲۶۹)‘‘ {اے ابوذر! پہلا رسول آدم(علیہ السلام) تھا اور آخری محمدؐ ہے۔}
ہشتم… ’’لم یبق من النبوۃ الا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤیا الصالحۃ (بخاری واللفظ لہ ج۱ ص۱۰۳۵، باب مبشرات، مسلم ج۱ ص۱۹۱، باب النہی عن قرأۃ القرآن فی الرکوع والسجود، طبرانی، احمد)‘‘ {نبوت ختم ہوچکی ہے۔ میرے بعد نبوت نہیں ہوگی۔ صرف بشارات ہوں گی۔ کسی نے پوچھا کہ یہ بشارات کیا ہیں؟ فرمایا صحیح خواب۔} اگر حضورﷺ کے بعد ظلی، بروزی، کشفی، جزوی یا تبعی نبوت کا وجود بھی ہوتا تو آپؐ ضرور ذکر فرماتے۔ لیکن آپؐ نے صحیح خواب کے بغیر باقی ہر قسم کی نبوت کا انکار کردیا۔ اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ حضورﷺ پر سلسلۂ نبوت ختم ہوچکا۔
نہم… جب فتح مکہ کے بعد حضرت عباسؓ نے حضورﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپؓ نے جواب میں لکھا۔ ’’یاعم اقم وکانک الذی انت بہ فان اﷲ قدختم بک الھجرۃ کما ختم بی النبوۃ (طبرانی، ابن عساکر)‘‘ {اے میرے چچا! وہیں رہو۔ اﷲ نے تم پر ہجرت کو یوں ختم کردیا ہے جس طرح مجھ پر نبوت کو۔}
دہم… ’’انا العاقب۰ والعاقب الذی لیس بعدہ نبی (بخاری ج۱ ص۵۰۱، باب ماجاء فی اسماء رسول اﷲ، مسلم واللفظ لہ ج۲ ص۲۶۱، باب فی اسمائہﷺ، مؤطا، ترمذی)‘‘ {میں عاقب (آخری) ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔}
یہ تھیں چند احادیث۔ مشتے ازخروارے۔ جن میں لفظ خاتم کی تشریح مختلف اسلوبوں، پیرایوں اور عبارتوں میں پیش کی گئی ہے۔ کہیں حضورﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘ کہیں اپنے آپ کو عاقب، کہیں آخر الانبیائ، اور کہیں تعمیر نبوت کی آخری اینٹ قرار دیا۔ تاکہ لفظ خاتم کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت باقی نہ رہے۔ نیز خاتم النبیین میں لفظ ’’النبیین‘‘ پہ استغراقی ال لگا کر ہر قسم کی نبوت کا امکان ختم کردیا۔ الف لام کی چار قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک استغراقی ہوتا ہے۔ جس کا مفہوم ہوتا ہے۔ ’’تمام کل‘‘ یہ جب جمع پہ داخل ہوتو عموماً استغراقی ہوتا ہے۔