ورق الٹ کر باب الہامات میں وہ انگریزی الہامات پھر پڑھئے۔ نیز ان اردو الہامات کی زبان بھی ملاحظہ کیجئے۔
میری رحمت تجھ کو لگ جائے گی۔ (تذکرہ ص۷۲۰)
خاکسار پیپر منٹ۔ (تذکرہ ص۵۲۷)
عالم کباب، کلمتہ اﷲ خان۔ (تذکرہ ص۶۶۳)
میں موج دکھاتا ہوں۔
خدا کی فیلنگ نے بڑا کام کیا۔ (تذکرہ ص۶۲۱)
ڈگری ہوگئی۔ (تذکرہ ص۷)
شعنا نعسا۔ (تذکرہ ص۱۰۲)
پریشن، عمر، پراطوس یعنی بڑاطوس یعنی پلاطوس۔ (تذکرہ ص۱۱۵)
کیا یہ خدائی زبان ہے؟ ایک زمانہ تھا کہ اﷲ کا کلام سن کر دلوں میں زلزلے اٹھتے تھے۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں پھوٹ نکلتی تھیں۔ فصحائے عالم، اﷲ کی اعجاز بیانی پہ دنگ رہ جاتے تھے اور بڑے بڑے سرکش اور اکھڑ کافر بے ساختہ پکار اٹھتے تھے۔
’’ماہذا قول البشر۱؎‘‘ اور ایک یہ زمانہ ہے کہ اﷲ کی زبان سن کر ہنسی آنے لگتی ہے اور ایک مڈل فیل بچہ بھی پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہے کہ میں اس خدا سے اردو اور انگریزی دونوں بہتر جانتا ہوں۔
اگر اعتماد نہ آئے تو کسی طالب العلم کی انگریزی واردو تحریر اور یہ اردو وانگریزی الہامات نام بتائے بغیر ماہرین کے پاس بھیج دیجئے اور دیکھئے کہ نمبر کسے زیادہ ملتے ہیں؟
۱؎ مشہور تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ حضورﷺ کی بعثت سے پہلے کعبہ کے قریب ایک گاؤں عکاظ میں ہر سال حج کے دنوں میں ایک میلہ لگتا تھا۔ جس میں شعرائے عرب نظمیں بھی سناتے تھے۔ جو نظم فصاحت وبلاغت اور تخیل کے لحاظ سے بہترین سمجھی جاتی تھی اسے مصری جھلی پہ سونے کے حروف سے لکھوا کر کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا۔ حضورﷺ کی بعثت تک ایسی سات نظمیں آویزاں کی جاچکی تھیں۔ ایک دن حضورﷺ حضرت علیؓ کے ہمراہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ حضرت علیؓ نے ان نظموں کے متعلق سارا ماجرا سنایا تو آپؐ نے ان نظموں کے نیچے سورۂ کوثر لکھوا دی۔ جب وہ میلہ پھر منعقد ہوا اور مشاعرہ کے جج کعبہ میں داخل ہوئے اور ان کی نظر ان آیات پر پڑی تو دنگ رہ گئے۔ وہ قصائد اتار لئے اور آیات کے نیچے لکھ دیا کہ یہ انسانی کلام نہیں۔