۸… ’’ولایفکرون فی لیلہم ولانہارہم انہم یسٔلون‘‘ اور وہ لوگ قیامت کی باز پرس سے نہیں ڈرتے۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۰۹، خزائن ج۱۶ص۱۷۵)
یہاں فکر کا یہ استعمال خالص پنجابی ہے۔ ڈر کے لئے خوف وخشیہ کی مصادر موجود ہیں۔ اس لئے لایخشون کہئے۔ قرآن میں ہر جگہ فکر غوروخوض اور تدبر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لقوم یتفکرون۰ یتفکرون فی خلق السماواۃ ۔وغیرہ
۹… ’’ولایبعد منی طرفۃ عین رحمتہ‘‘ اﷲ کی رحمت چشم زدن کے لئے بھی مجھ سے جدا نہیں ہوتی۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۱۰، خزائن ج۱۶ص۱۷۶،۱۷۵)
طرفۃ العین کسی کام کی رفتار وسرعت ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’راکٹ آنکھ جھپکنے کی دیر میں سومیل نکل گیا۔‘‘ قرآن میں درج ہے کہ ایک جن ملکہ سبا کا تخت چشم زدن میں حضرت سلیمان کے پاس لے آیا۔ اس لئے یہاں اس کا استعمال غلط ہے۔
۱۰… ’’ان انکاری حسرات علی الذین کفرو ابی وان اقراری برکات للذین…… یومنون‘‘ میرا انکار کفار کے لئے حسرتیں ہیں اور میرا اقرار مومنوں کے لئے برکتیں ہیں۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۱۳، خزائن ج۱۶ص۱۷۹)
میرا انکار اور میرا اقرار پنجابی عربی ہے۔ میرے اقرار وانکار کا مفہوم یہ ہے کہ جناب مرزا قادیانی کسی چیز کا اقرار اور کسی کا انکار کر بیٹھے ہیں اور اب فرما رہے ہیں کہ میرا اقرار وانکار… علاوہ ازیں انکار مفرد ہے اور حسرات جمع۔ اسی طرح اقرار مفرد ہے اور برکات جمع۔ اسم وخبر میں تطابق ضروری ہے۔ اس لئے حسرۃً وبرکۃً صحیح ہے اور حسرات وبرکات غلط۔
۱۱… ’’’’زکی من ایدی اﷲ‘‘ من کا استعمال خالص پنجابی ہے۔ بایدی اﷲ چاہئے۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۰۶، خزائن ج۱۶ص۱۸۴)
۱۲… ’’ان کنتم فی شک من امری فامتحونی‘‘ اگر میرے متعلق شک ہو تو میرا امتحان لو۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۲۸، خزائن ج۱۶ص۲۰۰)
یہ امتحان کا استعمال خالص پنجابی وغیر قرآنی ہے۔ قرآن اس مفہوم کو ادا کرنے سے لئے ابتلاء سے کام لیتا رہا۔
۱۳… ہم اردو یا پنجابی میں کہتے ہیں: ’’آپ قرآن پر رحم فرمائیں۔ اور تفسیر کی تکلیف گوارا نہ کریں۔‘‘ اس خالص ہندی محاورہ کو آپ عربی میں یوں منتقل کرتے ہیں: ’’فار