تو الیم کے معنی ہوںگے۔ ’’درد رساں‘‘ دوسرے کو دکھ دینے والی۔ اس تحقیق کے رو سے اس الہام کے معنی یوں ہوںگے۔ ’’تو ایک درد رساں ران دیکھے گا۔‘‘
یعنی ایسی ران دیکھے گا جو کسی اور کو تکلیف دے رہی ہوگی۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ یورک ایسڈ یا بادکی وجہ سے خود ران میں تکلیف ہورہی تھی نہ یہ کہ ران یورک ایسڈ کو کسی دکھ میں مبتلا کر رکھا تھا۔ بہرحال ’’الیم‘‘ کا یہ استعمال صحیح نہیں۔
۹… ایک مرتبہ مرزاقادیانی درد قولنج سے شفایاب ہوئے تو فوراً یہ الہام نازل ہوا۔ ’’ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بشفاء مثلہ‘‘ اگر تمہیں اس وحی کے متعلق کچھ شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پہ نازل کر رہے ہیں تو ذرا ایسی شفا تو دکھاؤ۔ (حقیقت الوحی ص۲۳۵، خزائن ج۲۲ ص۲۴۶)
لفظ شفاء کے بغیر باقی ساری آیت قرآن سے لی گئی ہے۔ اﷲ نے عرب کے فصحاء وبلغاء کو چیلنج دیا تھا کہ اگر تمہیں قرآن کے الہامی ہونے میں کوئی شک ہے تو ذرا چند ایسی آیات تو بنالاؤ۔ تیرہ سو برس کے بعد اﷲ نے وہی چیلنج ان الفاظ میں دہرایا۔
اگر مرزاقادیانی کی وحی میں شک ہے تو ایسی شفاء لے آؤ۔ وحی سے شفاء کا تعلق؟ اچھا تعلق سہی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج تک کسی غیر رسول کو قولنج سے شفاء نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی ہے اور بیسیوں ایسے مریض آپ نے بھی دیکھے ہوںگے تو پھر اس چیلنج کا مطلب؟ آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے حضور علیہ السلام نے تمام دنیا کو چیلنج دیا تھا کہ قرآن جیسی ایک آیت ہی بنالاؤ۔ تیرہ سو بہتّر(۷۲) برس گذر گئے اور کوئی ماں کا لال مقابلے میں نہ اترا۔ لیکن دوسری طرف دنیا میں ہر روز قولنج کے سینکڑوں مریض شفایاب ہوتے ہیں۔ یہ عجیب چیلنج ہے۔ جس کی دھجیاں دن میں بیس مرتبہ اڑائی جاتی ہیں۔ فاتوا (لاؤ)
اس فعل اتا۔ اتیانا کا تعلق محسوسات ومشہودات سے ہوتا ہے اور شفاء کا تعلق محسوسات سے نہیں۔ شفا اعتدال مزاج کا نام ہے اور اعتدال کو محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ جسم کا گرم وسرد ہونا علامات مرض وشفا ہیں۔ خود مرض وشفانہیں۔ اس لئے اس فعل کا استعمال اس الہام میں صحیح نہیں۔
پہلے ان جملوں کو پڑھئے۔
۱… میں نے مغلوں کے زمانے کا ارادہ کیا۔
۲… میں نے زمانہ حجری کا ارادہ کیا۔
۳… میں نے شام کے وقت کا ارادہ کیا۔