اب الہام کا ترجمہ سنئے۔ ’’یہ وہ ہمزاد یا مٹی ہے جسے لوگ نہیں جانتے۔‘‘ مطلب؟
خود مرزاقادیانی اس کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں۔ ’’یہ وہ عمل الترب (یعنی مسمریزم) ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو خبر نہیں۔‘‘ (ازالہ ص۳۱۲، خزائن ج۳ ص۲۵۹)
ترجمہ میں ترب کو عمل الترب بنادینا لغوی دراز دستی کی انتہاء ہے۔
۵… ’’انت من ماء نا وہم من فشل‘‘ (تذکرہ ص۲۰۴) فشل کے معنی ہیں بزدلی۔ ترجمہ یہ ہے۔ اے احمد! تم ہمارے پانی سے ہو اور باقی لوگ بزدلی سے ہیں۔
کیا سمجھے؟
۶… ’’وہذا تذکرۃ‘‘ (انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲) تذکرۃ مونث ہے اس لئے ہذا کی جگہ ہذہ چاہئے۔
۷… ’’اخطی واصیب‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۳، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶)
اﷲ فرماتا ہے۔ ’’میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی۔‘‘
آپ سوچ رہے ہوںگے کہ اﷲ خطا کیسے کرتا ہے۔ اس کی تشریح ملاحظہ ہو۔ ’’کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۳، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶)
عجیب بے بس خدا ہے جس کے ارادے کبھی پورے نہیں بھی ہوتے۔ قرآن میں فرمایا۔ ’’فعال لما یرید‘‘ {اس کے ارادے نہایت جاہ وجلال سے پورے ہوتے ہیں۔}
اور یہاں یہ ضعف وبے چارگی۔
۸… ایک مرتبہ آپ کو الہام ہوا۔ ’’تریٰ فخذاً الیما‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۳۲، خزائن ج۲۲ ص۲۴۴)
اور کچھ دیر کے بعد ایک ایسا بیمار آپ کے ہاں لایا گیا جس کی ران میں درد تھا۔
عربی میں الیم اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسرے کو دکھ دے۔ مثلاً عذاب الیم۔ ایسا عذاب جو دوسروں کے لئے تکلیف دہ ہو۔ المنجد میں درج ہے۔
الالیم = المرجع
مرجع اسم فاعل ہے اور اوجع یرجع سے اور متعدی ہے۔ فعل متعدی کا اثر ہمیشہ فاعل سے مفعول تک جاتا ہے۔
زید نے عمر کو مارا، مار عمر پر واقع ہوئی ہے۔
خالد نے مسافر کو پانی پلایا، پینے سے فائدہ مسافر نے اٹھایا۔