فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس نے جنت شمشیر کے سائے میں رکھ دی تھی اور جس کے قرآن میں محکوم مسلمان کا تصور تک موجود نہیں۔
ماحصل یہ کہ یہ الہام آتیناک الدنیا (ہم نے تمہیں دنیادے دی) مادی لحاظ سے غلط ہے اور روحانی لحاظ سے ابھی پورا نہیں ہوا اور نہ آئندہ اس کی تکمیل کا کوئی امکان نظر آتا ہے ۳… طاعون کے زمانے میں قادیان کے متعلق یہ الہام نازل ہوا تھا۔ ’’لولا الاکرام الہلک المقام‘‘ اگر تیری عزت منظور نہ ہوتی تو یہ مقام قادیان تباہ ہو جاتا۔
(تذکرہ ص۴۱۶)
اکرام کے معنی ہیں۔ عزت کرنا۔ تیری عزت قطعاً نہیں۔ تیری کے لئے عربی میں ک ہے۔ اگر ہم یہاں ک محذوف تصور کر لیں تو پھر عبارت یوں ہوگی۔ ’’لولا الاکرامک‘‘ جو صریحاً غلط ہے۔ اس لئے کہ اکرام مضاف ہے اور مضاف پر ال داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم آل کو بھی حذف کر دیں تو فقرہ بنے گا۔ ’’لولا اکرامک‘‘ جس کے معنی ہوںگے۔ اگر تیرا عزت کرنا نہ ہوتا ظاہر ہے کہ اس فقرے میں بھی کوئی مفہوم موجود نہیں۔
علاوہ ازیں مقام کے لفظی معنی ہیں۔ وہ جگہ جو دوپاؤں کے نیچے ہو یا وہ جگہ جہاں آپ دوران سفر میں قیام کریں۔ مستقل جائے قیام کو بیت یادار کہتے ہیں۔ لغت کے لحاظ سے ہر جگہ مقام کہلاتی ہے۔ لیکن اصلاحاً عرب کسی بستی کو مقام نہیں کہتے۔ اس کے لئے قریہ کا لفظ ہے۔ پھر اہل عرب کی لغت میں ہلاکت کا لفظ جاندار اشیاء کے لئے مخصوص ہے۔ انسان، جانور اور پرندے ہلاک ہوتے ہیں نہ کہ پتھر، دریا، صحراء اور درخت۔ جب عرب یہ کہتے ہیں کہ فلاں بستی ہلاک ہوگئی تو ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس گاؤن کی اینٹیں اور مکان فوت ہوگئے ہیں۔ بلکہ یہ کہ بسنے والے تباہ ہو گئے ہیں۔ عربی ادب میں ’’ہلک القریٰ‘‘ (بستیاں ہلاک ہوگئیں) تو ملے گا۔ لیکن ’’ہلک المقام‘‘ کہیں نظر نہیں آئے گا۔ مقام کا یہ استعمال خالص ہندی ہے۔ تو گویا اس الہام میں مندرجہ ذیل خامیاں پائی جاتی ہیں۔
۱… الاکرام کا استعمال غلط اور بے معنی ہے۔
۲… مقام کا استعمال ہندی ہے۔
۳… ہلاکت کی نسبت مقام کی طرف عربی محاورہ کے خلاف ہے۔
۴… ’’ہذا ہو الترب الذی لا یعلمون‘‘ خط کشیدہ لفظ یا توترب ہے اور یاترب ، ترب کے معنی ہیں۔ توام، ہمزاد اور ترب کے معنی ہیں خاک مٹی۔