یہاں ’’جو‘‘ بے محل ہے۔
۳… ’’ان میں ایک ہیبت بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ ایک خاص طور پر ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۴۷، خزائن ج۳ ص۳۳۷)
’’ایک خاص طور پر‘‘ مطلب؟
۴… ’’جو شخص مامور ہوکر آسمان سے آتا ہے… درحقیقت وہ ایک روحانی آفتاب نکلتا ہے۔ جس کی کم وبیش دور دور تک روشنی پہنچتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۴۹، خزائن ج۳ ص۳۳۹)
خط کشیدہ حصص بے معنی ہیں۔
۵… اردو کے مرکب توصیفی میں موصوف مفرد یا جمع۔ صفت مفرد ہی رہے گی۔ مثلاً چھوٹی کتاب، چھوٹی کتابیں، سبز ٹہنی، سبز ٹہنیاں، جنگلی لڑکی، جنگلی لڑکیاں۔ لیکن مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’(یہ پادری) کافرستان کے وحشی لوگوں اور افریقہ کے جنگلیوں آدمیوں کے پاس جاتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۹۷، خزائن ج۳ ص۳۶۷)
۶… ’’تو پھر روح اس جسم میں آگئی جو بطور بیکار چھوڑا گیا تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۴۱، خزائن ج۳ ص۳۹۱)
۷… ’’میں اپنے چند موہومی بزرگوں کی لکیر کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۴۳، خزائن ج۳ ص۳۹۲)
خدا جانے یہ موہومی کیا چیز ہے اور یہ موہومی بزرگ کون ہوتے ہیں؟
۸… ’’اور درندگی کے جوشوں کی وجہ سے لعنتوں پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۹۵، خزائن ج۳ ص۴۲۱)
جوشوں کی جگہ جوش چاہئے۔
۹… ’’اب جو یہودیت کی صفتوں کا عام وبا پھیل گیا ہے اور نصاریٰ کو اپنے مشرکانہ خیالات میں بہت سے کامیابی ہوئی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۵۰، خزائن ج۳ ص۵۴۱)
اردو میں لفظ صفت عموماً مدح، خیر اور خوبی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں نتائج چاہئے۔ نیز وبا، کامیابی، مؤنث ہیں۔
۱۰… لاطائل (بے سود) ایک عربی مرکب ہے جو فارسی واردو دونوں میں