محاورہ ہے۔ ’’کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا‘‘ یعنی سوال کرنا، ہاتھ پھیلا پھیلا کر مفلسی ظاہر کرنا بے معنی ہے۔
۲… فارسی میں ایک محاورہ ہے۔ ’’دروغ بافتن‘‘ اور اردو کا محاورہ ہے۔ ’’جھوٹ گھڑنا‘‘ ’’جھوٹ بنانا‘‘ یا ’’جھوٹ کے پل باندھنا‘‘ لیکن مرزاقادیانی ایک نیا محاورہ پیش کرتے ہیں۔ ’’یہ دروغ بے فروغ اسی حد تک بناگیا تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۲۶، خزائن ج۳ ص۳۸۲)
دروغ بننا کوئی محاورہ نہیں۔
۳… اردو میں ذرا اور ذرہ دو علیحدہ لفظ ہیں۔
ذرا = تھوڑا، کم، ایک لمحہ۔
ذرا ٹھہرو تو سہی۔
ذرا ہوش میں آؤ۔
ذرا عقل کے ناخن لو۔
ذرہ = جمع ذراّت، اجزائے غبار۔
ذرہ بے مایہ، ذرّۂ خاک۔ ذرہ بھر۔
اس فرق کو سمجھنے کے بعد اب یہ فقرہ دیکھئے۔ ’’قرآن کریم نے حضرت مسیح کے وفات کے منکروں کو ایسی ترک دی ہے کہ اب وہ ذرہ نہیں ٹھہر سکتے۔‘‘
’’وفات‘‘ مذکر ہے یا مؤنث۔ اسے جانے دیجئے۔ صرف یہ دیکھئے کہ آخری جملے میں ’’ذرہ‘‘ کا مفہوم کیا ہے اور اس کا یہ استعمال کہاں تک صحیح ہے؟
۴… ’’لگ جانا‘‘ ایک عام فعل ہے جس کے مفہوم سے ہر کوئی واقف ہے۔ مثلاً نظر لگ جانا۔ بیماری لگ جانا۔ کپڑے کومٹی لگ جانا۔ کیڑا لگ جانا۔ یہ محاورات اردو اور پنجابی دونوں میں استعمال ہوتے ہیں اور انہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ لیکن مرزاقادیانی کی ایک وحی میں اس لفظ کا استعمال کچھ اس طرح ہوا ہے کہ کچھ بھی پلے نہیں پڑتا۔ اﷲ فرماتا ہے۔ ’’میری رحمت تجھ کو لگ جائے گی۔ اﷲ رحم کرے گا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۷۰، خزائن ج۲۲ ص۶۱۰) کیا رحمت کوئی بیماری ہے۔ جس سے محفوظ رہنے کی بشارت دی جارہی ہے یا دھمکایا جارہا ہے کہ اے میرے نبی؟ تو اس وقت میری رحمت سے بچ نہیں سکتا۔ البتہ! آخر میں تم پر رحم کیا جائے گا۔