بحر زندگی کو ’’بحر فنا‘‘ کہنا ’’جس جگہ جاکر‘‘ میں تین جیم جمع کر دینا۔ ’’وہی‘‘ کو ’’ووہی‘‘ باندھنا۔ ’’بن گیا‘‘ کی جگہ ’’ہوگیا‘‘ لانا اور صرف ایک شعر میں ’’اس‘‘ ’’رواں‘‘ اور ’’جاکر‘‘ جیسے تین زوائد (فالتو الفاظ) بھر دینا بدمذاقی کی انتہاء ہے۔
دوسری طرف غالب زندگی کو ایک ایسے ’’رخش سرکش‘‘ سے تشبیہ دیتا ہے جو سرپھٹ بھاگا جارہا ہے۔ دہشت زدہ سوار کے ہاتھ باگ پر نہیں اور نہ پاؤں رکاب میں ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس سوار کی منزل کہاں ہوگی اور انجام کیا؟
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہیں رکاب میں
کسی فلسفی سے پوچھئے کہ زندگی کی کتنی صحیح تصویر کھینچی ہے اور کسی ادیب سے پوچھئے کہ زور بیان اور رفعت تخلیل کے لحاظ سے یہ کتنا فصیح شعر ہے۔ تو ہم کہہ یہ رہے تھے کہ دنیا میں وہی ادیب وخطیب کامیاب رہتا ہے جو وصف فصاحت کا حامل ہو اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ نے ہر نبی کو اعجاز فصاحت عطاء کیا تھا۔ مرزاقادیانی بھی فصاحت وبلاغت کی انقلابی طاقت سے آگاہ تھے اور اسی لئے باربار فرماتے ہیں۔ ’’فصار عونی فی فصاحۃ البیان‘‘ اﷲ نے اپنے فضل سے مجھے فصیح البیان بنایا۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۴۹، خزائن ج۱۷ ص۸۵)
’’انما اوتیت بالایات والقوۃ القدسیۃ وحسن البیان‘‘ اﷲ نے مجھے نشانات دئیے۔ نیز قوت قدسیہ اور حسن بیان کی نعمت عطاء کی۔
(خطبۂ الہامیہ ص۲۳، خزائن ج۱۶ ص۵۶حاشیہ)
’’کلام افصحت من لدن رب کریم‘‘ میرے کلام کو رب حکیم نے فصیح بنایا۔
(حقیقت الوحی ص۱۰۲، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵،۱۰۶) مرزاقادیانی کے ارشادات پانچ زبانوں میں ملتے ہیں۔ عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور پنجابی۔ پنجابی میں صرف ایک آدھ الہام ہے۔ انگریزی اقوال صفحات گذشتہ میں درج ہوچکے ہیں۔ عربی زبان میں آپ نے بہت کچھ لکھا ہے۔ خطبۂ الہامیہ، سورۂ فاتحہ کی تفسیر، اعجاز المسیح اور چند دیگر قصائد ومقالات۔ آپ عربی زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔ قلم برداشتہ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ چونکہ کسی غیر زبان پر پوری قدرت حاصل کرنا دشوار ہے۔ اس لئے یہاں بھی لغزش پائی جاتی ہے۔ کہیں فعل وفاعل میں تطابق نہیں۔ کہیں ضمیرومرجع میں ہم آہنگی نہیں اور کہیں پنجابی محاورات کو عربی میں منتقل کردیا ہے۔ یہ اغلاط کم سہی۔ لیکن موجود ضرور ہیں۔ تفصیل کا انتظار فرمائیے۔