لاہور کے بعد میں اور ملنے کے بعد کے لئے ایجاز (اختصار) کی خاطر حذف کر دئیے گئے کہ ایجاز جان فصاحت ہے۔
دوسری مثال: ’’مارا محمود کو میں نے۔‘‘
اس جملے میں مارا فعل ہے۔ جس کا صحیح مقام آخر میں ہے۔ میں فاعل ہے اور محمود مفعول، فاعل سے پہلے ہونا چاہئے۔ اس لئے جملے کی صحیح صورت یہ ہے۔ ’’میں نے محمود کو مارا۔‘‘
صحت فصاحت کی بنیاد ہے۔ اگر کسی فقرے میں قواعد کی اغلاط موجود ہوں تو وہ فصیح ہو ہی نہیں سکتا۔ ان الفاظ پر غور فرمائیے۔ فلاسفہ، فلاطونی گروہ، غیر محض علم۔ صرف۔
سب کے سب فصیح الفاظ ہیں۔ ان کی ترتیب اس طرح بھی ہوسکتی ہے۔ ’’فلاسفہ کا فلاطونی گروہ صرف علم کو خیر محض سمجھتا ہے۔‘‘
اور اس طرح بھی۔ ’’فلاسفہ کی فلاطونی گروہ صرف علم کو خیر محض سمجھتے ہیں۔‘‘
پہلا جملہ فصیح اور دوسرا غیر فصیح۔ اس لئے کہ دوسرے میں جمع ومفرد اورمؤنث ومذکر کی تمیز قائم نہیں رکھی گئی۔
تو گویا فصاحت کے لئے ضروری ہے کہ کلام اغلاط سے مبرا ہو اور ہر لفظ اپنے صحیح مقام پر ہو۔ جب ہم مرزاقادیانی کی تحریرات کو اس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو اندازاً پچاس فیصد ایسے جملے ملتے ہیں جن کی ترتیب فطری نہیں۔ چند امثلہ ملاحظہ ہوں۔
۱… ’’اور ایک جماعت محققین کی بھی یہی معنی آیت موصوفہ بالا کے لیتی ہے۔‘‘ (ازالہ حصہ دوم ص۴۲۶، خزائن ج۳ ص۳۲۵)
اردو میں مضاف الیہ ہمیشہ پہلے آتا ہے۔ لیکن یہاں مضاف ایک جماعت پہلے ہے۔ اسی طرح ’’یہی معنی‘‘ (مضاف) آیت موصوفہ (مضاف الیہ) سے پہلے مذکور ہوا۔ موصوفہ میں بالا کا مفہوم موجود ہے۔ اس لئے بالازائد ہے۔ جملہ یوں ہونا چاہئے تھا۔ ’’اور محققین کی ایک جماعت بھی آیت موصوفہ کے یہی معنی لیتی ہے۔‘‘
۲… ’’خدائے تعالیٰ کے ساتھ ان لوگوں کو نہایت کامل وفاداری کا تعلق ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۴۴۶، خزائن ج۳ ص۳۳۷) ’’کو‘‘ علامت مفعول ہے نہ کہ نشان اضافت۔ اس لئے یہاں ’’کا‘‘ چاہئے ’’کے ساتھ‘‘ کی جگہ ’’سے‘‘ کافی ہے۔