فصاحت ایک نہایت کمیاب جوہر ہے جو کروڑوں میں سے ایک کو ملتا ہے۔ ہندوپاک کے پچاس کروڑ نفوس پہ نظر ڈالئے اور فرمائے کہ ان میں فصیح البیان ادیب وخطیب کتنے ہیں۔ شاید آپ پچاس نام بھی نہ بتاسکیں۔ یہی حال دیگر ممالک کا ہے۔
فصاحت ایک ایسی طاقت ہے جس نے دنیا میں ہزارہا انقلاب بپا کئے۔ آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کے اسلامی انقلاب پہ نگاہ ڈالئے یہ کس کا اعجاز تھا کہ شتر بان جہاں باں بن گئے تھے اور ان منتشر قطروں میں سمندروں کا جلال پیدا ہوگیا تھا۔ صرف فصیح وبلیغ قرآن کا، جس کا ہر لفظ بجتا ہوا ساز تھا اور ہر حرف دنیائے گداز، بات حضورﷺ کے منہ سے نکل کر سیدھی دلوں میں جا بیٹھی تھی، اور روح میں ایک آگ بھڑکادیتی تھی۔ اگر قرآن جوہر فصاحت سے عاری ہوتا تو شاید کوئی کان اس کی طرف متوجہ نہ ہوتا۔ یہ قرآن کی روح افروز موسیقی کا اثر تھا کہ چند آیات سن کر نجاشی کے رخسار آنسوؤں سے بھیگ گئے تھے۔ فاروقؓ کی تیغ خوں آشام دفاع اسلام کے لئے بے نیام ہوگئی تھی اور قیصر روم نے مایوس ہوکر کہا تھا۔ ’’اگر عربوں کی حالت وہی ہے جو اے قاصد تم نے بیان کی ہے تو سن لو کہ وہ بہت جلد اس زمین کے مالک بن جائیںگے۔ جو آج میرے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘
داناؤں سے سنا ہے کہ قلم تلوار سے بڑی طاقت ہے۔ لیکن کون سا قلم وہ قلم جو پھول برسانے پہ آجائے تو صحراؤں کو رشک ارم بنادے اور شعلے برسانے لگے تو فضاؤں میں چنگاریاں دہکنے لگیں۔ نہ وہ قلم جو بلند سے بلند تخیل کے پیٹ میں چھرا بن کر پیوست ہوجائے۔ فصاحت کیا ہے یہ ایک طویل بحث ہے۔ مختصراً یہ کہ الفاظ میں ترنم ہو۔ بندشوں میں چستی ہو۔ تحریر میں روانی ہو۔ کلام حشووزائد سے پاک ہو۔ خلاف محاورہ نہ ہو۔ الفاظ موضوع کے مطابق ہوں۔ اگر خطیب کسی مجمع کو جانبازی کا سبق دے رہا ہے تو اس کے کلام میں زور، تسلسل، ہیبت اور جلال ہو۔ اگر کربلا کا منظر کھینچ رہا ہے تو رقت، سوز اور گداز ہو۔ ڈھیلی بندشیں اور سست ترکیبیں بات کو نیم جان بنادیتی ہیں اور مخاطب کو مضمحل، ذوق وغالب نے بارہا ایک ہی مضمون پر قلم اٹھایا۔ چونکہ ذوق بے حد بدذوق تھا۔ اس لئے اس کا ہر تخیل منہ کے بل گرا اور غالب اپنے حسن مذاق، حسن تخیل اور حسن بیان کی بدولت ادب پرستوں کا معبود بن گیا۔ فلسفۂ زندگی پہ دونوں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ذوق کہتا ہے ؎
ذوق اس بحث فنا میں کشتی عمر رواں
جس جگہ جا کر لگی ووہی کنارہ ہوگیا